ریستوران میں کھانا ساتھ لیکن فاصلے سے
میز کے درمیان حفاظتی شیلڈ نہ ہو تو چہرے کو مکمل ڈھانپنا ضروری ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
چین کے علاوہ کئی یورپی ممالک نے بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے کے بعد کاروبای مراکز کھول دے ہیں۔ لاک ڈٓاؤن کے دوران ریسٹورنٹ ویسے تو ڈیلوری یا ٹیک اوے کے لیے کھلے ہوئے تھے لیکن اندر بیٹھ کر کھانے کی اجازت نہیں تھی۔
اب لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ریسٹورنٹس پر عائد یہ پابندی بھی ختم ہوگئی ہے۔ لیکن اب کی بار جب ریسٹورنٹ جائیں گے تو ہر ٹیبل کے درمیان پلاسٹک یا شیشے کی چھوٹی سی دیوار کھڑی نظر آئے گی جس کا مقصد جراثیم کے پھیلاؤ کو ناممکن بنانا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے چند ممالک کے ریسٹورنٹ کی تصاویر شیئر کی ہیں جن میں نہ تو صرف ایک ہی میز پر بیٹھے ہوئے افراد کے درمیان فاصلہ لازمی ہے بلکہ ایک کھانے کی میز دوسرے سے کم از کم چھ فٹ کے فاصلے پر ہے۔
یورپی شہر ایمسٹر ڈیم میں نئی طرز کے ریسٹورنٹ کا تجربہ کیا جا رہا ہے جس میں ہر ٹیبل کے گرد شیشے کی دیواریں کھڑی کر کے جراثیم کی منتقلی سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔
تھائی لینڈ کے ایک ریسٹورنت نے سماجی فاصلے کے اصول کی پابندی کا نیا طریقہ نکالا ہے جس کے تحت فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ کھانے کا مزہ بھی لے سکتے ہیں۔
سویڈن کے ایک جوڑے نے نئی طرز کا ریسٹورنٹ کھولا ہے جس میں صرف ایک میز اور ایک کرسی ہے۔ کھانا دینے کے لیے کوئی ویٹر نہیں بلکہ آرڈر ایک ٹوکری میں ڈال کر رسی کے ذریعے کسٹمر تک پہنجایا جاتا ہے۔
یورپی ملک جارجیا کی ایک برگر چین نے چھ فٹ کا فاصلہ رکھنے کے لیے ایک ٹیبل چھوڑ کر کسٹمرز کو بٹھایا ہوا ہے۔
یورپی ملک ایمسٹرڈیم میں ویٹر چہرے کو مکمل ڈھانپے دور سے کھانا ٹیبل پر رکھ رہی ہیں۔
اٹلی میں ایک ریسٹورنٹ کے مالکان میز کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ یقینی بنانے کے لیے ناپ لے رہے ہیں۔
تھائی لینڈ کے ایک ریسٹورنٹ میں ہر ٹیبل کو چاروں اطراف سے پلاسٹک سے نہ صرف محفوظ کیا گیا ہے بلکہ میز کے درمیان شیلڈ بھی لگایا گیا ہے۔