اللہ کے رسول کی ام خالد کے حق میں دعا قبول ہوئی اور انھوں نے بہت لمبی عمر پائی،صحابیات میں سب سے آخر میں وفات پانے والی تھیں
عبدالمالک مجاہد ۔ ریاض
- - - - - - -- - - - -
مکہ مکرمہ میں قریش کے 10،12 معروف اور معزز گھرانوں میں ایک خاندان بنو امیہ کا بھی تھا۔ یہ گھرانہ مالی اعتبار سے بھی بڑا آسودہ تھا۔ اہل مکہ میں حرب فجار بڑی مشہور ہوئی، اس جنگ کا جھنڈا اموی خاندان کے ایک سردار ’’حرب بن امیہ‘‘ کے پاس تھاجو سیدنا ابو سفیانؓ کا والد تھا۔ اس گھرانے نے اسلام اور اللہ کے رسولکی بے حدمخالف کی مگر اسی خاندان کے ایک عظیم فرزند خالد بن سعید بن العاصؓ کو یہ اعزاز ملتا ہے کہ مردوں میں اسلام قبول کرنے والوں میں ان کا نمبر پانچواں تھا۔ ان سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا زید بن حارثہؓ اورسیدنا سعد بن ابی وقاص رضوان اللہ علیہم ہی اسلام لائے تھے۔ اس اعتبار سے وہ واقعی سابقون الاولون میں سے تھے۔ جن لوگوں نے شروع شروع میں اسلام قبول کیا ان کی فضیلت سے کسی بھی شخص کو انکار نہیں۔
اموی گھرانے کو اللہ تعالیٰ نے بعض مخصوص صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔قیادت، سیادت، دولت اور سیاست ان کے گھر کی لونڈی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیدنا عثمان بن عفانؓکا تعلق بھی بنو امیہ سے تھا۔آپ بھی سابقون اولون میں سے ہیں۔ خالد بن سعیدؓ بڑے ہی خوبصورت سمجھدار نوجوان تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کیا تو انہیں ایک عجیب و غریب خواب دکھلا دیا۔ اس خواب نے ان کی زندگی میں انقلاب برپا کر کے رکھ دیا۔
قارئین کرام !یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بعض خواب بالکل سچے ہوتے ہیں۔ عرب بلاشبہ بت پرستی میں بری طرح مبتلا ہو چکے تھے مگر اصل میں تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ بہت سی خرابیاں در آنے کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے تھے۔ خالد بن سعیدؓ خواب میں دیکھتے ہیں کہ وہ آگ کے ایک گڑھے پر کھڑے ہیں۔ یہ آگ بہت بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے شعلے فضا میں بلند ہو رہے ہیں۔
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ ہم سب کو آگ سے بچائے، جب پھیلتی ہے تو پھیلتی ہی چلی جاتی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کا والد سعید بن العاص انہیں آگ میں دھکا دے رہا ہے جبکہ اللہ کے رسولانہیں آگ سے بچا رہے ہیں۔ وہ خالد کو پیچھے سے پکڑ کر باہر کھینچ رہے ہیں۔ خواب بلاشبہ بہت مہیب اور خوفناک تھا۔ آنکھ کھل گئی خالد نے بے اختیار کہا :میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ سچا خواب ہے۔ یہ وہ ایام تھے جب اللہ کے رسولاعلان نبوت کر چکے تھے۔4 خوش قسمت ترین لوگ اسلام کی دولت سے مالا مال ہو چکے تھے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ مکہ کی متمول اور نہایت پسندیدہ شخصیت تھے۔ خالدؓ کی ملاقات سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے ہوتی ہے تو خالد نے انہیں مذکورہ خواب سنایا۔ انہوں نے جواب میں فرمایا: دیکھو خالد! اللہ رب العزت تمہارے ساتھ خیر و بھلائی چاہتا ہے۔ اسی لیے تم نے یہ خواب دیکھا ہے۔ تم ایسا کرو کہ اللہ کے رسولسے ملاقات کرو اور ان کے دین کو تسلیم کر کے ان پر ایمان لے آؤ۔سنو! اگر تم نے اسلام قبول کر لیا تو اسلام تمہیں آگ کے گڑھے میں گرنے میں بچا لے گا۔ خالد بن سعیدؓ تو پہلے ہی آگ سے ڈرے اور سہمے ہوئے تھے۔ سیدناابوبکر صدیقؓ کی بات دل کو لگی، فورا اللہ کے رسولکی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ اجیاد کے مقام پر اللہ کے رسولسے ملاقات ہو جاتی ہے۔ اللہ کے رسولان کے رشتہ دار بھی تھے۔ سوال کیا : آپ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟ آپنے ارشاد فرمایا: میں اکیلے اللہ کی طرف بلاتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد()اس کے بندے اور رسول ہیںاور تم پتھروں کی عبادت کرنا چھوڑ دو۔ وہ پتھر جونہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے، نہ نقصان دے سکتا ہے، نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ ہی اسے خبر ہے کہ کون اس کی عبادت کررہا ہے اور کون نہیں کر رہا۔ آپنے اسلام کا بڑا ہی مختصر مگر جامع تعارف کروایا۔ عرب اہل زبان تھے، وہ اس کی باریکیوں کو خوب سمجھتے تھے۔ خالد کی خوش قسمتی کہ اللہ کے رسولکی زبان اقدس سے یہ الفاظ سنے تو فورا کلمہ شہادت پڑھ لیا۔توحید ورسالت کی گواہی دیتے ہوئے یہ کلمات زبان پر آگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپکو ان کے اسلام لانے سے بے حد خوشی ہوئی۔ایک نوجوان، سمجھ دار اور بڑے گھرانے کا فرزند جہنم جانے سے بچ گیا۔ خالدؓ اپنے آپ کو غائب کر لیتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کے اسلام لانے کا علم نہ ہو۔ مکہ مکرمہ میں آہستہ آہستہ اسلام کی خوشبو پھیلتی چلی گئی، لوگ اسلام قبول کرتے چلے گئے۔
ادھر خالدؓ کا اسلام بھی کب تک چھپا رہتا۔ ایک دن آ گیا کہ ان کے والد سعید بن العاص کو معلوم ہوگیا کہ اس کے اپنے بیٹے نے دعوت توحید کو قبول کر لیا ہے۔ سعید بن العاص صرف مکہ کا بڑا چودھری اور نمایاں فرد ہی نہ تھابلکہ اسلام کے بد ترین دشمنوں میں سے ایک تھا۔ بیٹے کے اسلام قبول کرنے کا سنا تو آپے سے باہر ہو گیا۔ اپنی اولاد کو حکم دیا کہ خالدؓ کو فوراً تلاش کرو اور اسے میرے پاس لاؤ۔ بیٹوں نے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور خالدؓ کو تلاش کر کے باپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ بیٹے کو دیکھا تو غصہ عروج پر پہنچ گیا، گالیاں بکنے لگا ، برا بھلا،جو بھی منہ میں آیا بکتا چلا گیا۔ بیٹا آخر بیٹا تھا، وہ پورے صبر و تحمل سے باپ کی گالیاں سنتا رہا۔ باپ کے ہاتھ میں لاٹھی تھی ،اس نے لاٹھی سے خالدؓ کو مارنا شروع کر دیا اور سر پر لاٹھی مار مار کر توڑ ڈالی۔
ادھر خالد ؓ تھا کہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ سعید نے کہا : ارے کمبخت ! تو قوم کی مخالفت کرتے ہوئے محمد ()کی اتباع کرتا ہے۔ ان کو اپنا نبی مانتا ہے۔ وہ جو ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور ہمارے جو آباء و اجداد وفات پا چکے ہیں ،ان کے عقائد کابھی انکار کرتے ہیں۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ان کا انکار کرو۔ واپس پرانے دین پر آ جاؤ۔ خالدؓ اپنے باپ کی گالیاں سنتے رہے بالآخر بول پڑے: اباجان! اللہ کی قسم! میں نے محمدکا کلمہ پڑھ لیا ہے اور ان کی اتباع کرنے لگا ہوں،جس دعوت کو وہ لے کر آئے ہیں میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ باپ پہلے ہی غصہ میں تھا ،اس نے غصے سے پھنکارتے ہوئے کہا: نا فرمان!چلے جاؤ یہاں سے، جہاں تمہارا جی چاہے، بس میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ۔ میں آج سے تمہارا نان و نفقہ بند کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ خالدؓ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا: ابا جان! آپ تو میرا رزق بند کر دیں گے مگر میرا رب مجھے اتنا رزق ضرور دیتا رہے گا جس سے میں اپنی زندگی گزار سکوں۔ سعید نے اپنے بیٹوں سے کہا : خبردار!جو آج کے بعد کسی نے خالدؓ کے ساتھ بات کی۔ آج کے بعد اس نافرمان کے ساتھ ہمارے خاندان کے افراد کی ہر قسم کی بات چیت بند رہے گی۔ اگر کسی نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ بھی خالد ؓ جیسا ہی سلوک کروں گا۔ خالدؓ اپنے والد سے مار اور گالیاں کھا کر نکلا تو اس کا رخ کائنات کی سب سے مشفق اور مہربان ہستی کی طرف تھا۔ان جیسا مہربان اس کائنات میں اور کوئی بھی نہیں تھا۔
اللہ کے رسولنے خالدؓ کے ساتھ ہمدردی اور دلجوئی کی، اپنے ساتھی کو دلاسا دیا اور قریب کر لیا۔ اسلام کے لیے قربانیوں کا ابھی تو آغاز ہی ہوا تھا۔ آگے چل کر بہت سے مشکل حالات آنے والے تھے۔ قارئین کرام! سیدنا خالد بن سعید ؓاللہ کے رسولکی خدمت میں وقت گزارتے رہے ۔ وہ اپنے والد سے دانستہ ٹکراؤ نہیں چاہتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مکہ والوں کی اللہ کے رسولسے دشمنی بڑھتی چلی گئی۔ ادھر اسلام دشمنی میں سعید بن العاص پیش پیش تھا۔ مکہ مکرمہ میں اس کا بڑا مرتبہ اور مقام تھا۔ ایک مرتبہ بیمار ہو گیا تو اس نے منت مانی کہ اگر میں تندرست ہو گیا تو مکہ مکرمہ میںمحمد کے ’’الٰہ‘‘ کی عبادت کسی کو نہیں کرنے دوں گا۔ خالد کو اپنے والد کے عزائم کا علم ہوا تو باپ کے خلاف بد دعا کرتے ہوئے کہا: اللہ! اب اسے صحت نہ ہی دینا، صحت یاب ہو کر یہ نقصان ہی کرے گا۔ چنانچہ اسی بیماری میں سعید بن عاص مر جاتا ہے۔ ادھر مسلمانوں کے خلاف مکہ میں دن بدن حالات بگڑتے جا رہے تھے۔ اللہ کے رسولنے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جانے کا مشورہ دے دیا چنانچہ سیدناخالدؓ نے بھی اپنی اہلیہ سیدہ امیمہ بنت خلف الخزاعیہ کو ساتھ لیا اور چپکے سے حبشہ ہجرت کر گئے۔ قارئین کرام! ہجرت کا لفظ زبان سے ادا کرنا آسان ہے مگر عملاًیہ اتنی آسان بات نہیں۔ خالد اور انکی اہلیہ بڑے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی پرورش بڑے ناز و نعم میں ہوئی تھی۔ حبشہ ایک ایسا ملک تھا جہاں پر مکمل اجنبی ماحول تھا۔ وہاں کی مقامی زبان بھی عربی سے مختلف تھی مگر اسلام کی خاطر یہ قربانی بھی دے دی گئی۔ ان کے ساتھ ان کے بھائی سیدنا عمرو بن سعید بن عاصؓ بھی ہجرت کر جاتے ہیں۔ سیدناخالدؓ دیگر مسلمانوں کے ساتھ حبشہ میں پر امن اور با وقار وقت گزارنے لگے۔ یہ لوگ تاجر پیشہ تھے ،زندگی گزارنے کے لیے چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے برکتیں عطا فرمائیں۔ انہیں حکومت کی طرف سے کسی پابندی کا سامنا نہیں تھا۔شاہ حبشہ نجاشی مسلمانوں کی دل سے عزت کرتا تھا۔ حبشہ میں قیام کے دوران خالد اور ان کی اہلیہ امیمہ کے آنگن میں ایک پھول کھلتا ہے۔ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام سعید رکھا جاتا ہے۔ پھر ایک بیٹی پیدا ہوتی ہے جس کا نام ’’امہ‘‘ رکھا جاتا ہے۔ یہ بڑی ہی پیاری، خوبصورت اور نہایت ذہین و فطین بچی تھی ۔ان بچوں کے دلوں میں اللہ کے رسول کے ساتھ شدید محبت تھی۔ والدین نے تربیت ہی ایسی کی تھی۔ حبشہ میں قیام کے دوران ایک اور اعزازسیدنا خالد بن سعیدؓ کو ملتا ہے۔وہ یہ کہ ابو سفیان کی صاحبزادی سیدہ رملہ بھی اپنے خاوند عبیداللہ بن جحش کے ساتھ حبشہ میں مقیم تھیں۔
بیٹی حبیبہ بھی اپنے والدین کے ساتھ تھیں کہ عبیداللہ وفات پا گیا۔ ام حبیبہ کی عدت گزر گئی تو اللہ کے رسولنے سیدہ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ سیدہ نے اسے قبول کر لیا اور نکاح کے لیے انہوں نے اپنا وکیل ماموں زاد بھائی خالد بن سعید کو مقرر کیا کیونکہ حبشہ میں سب سے قریبی رشتہ دار یہی تھے۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ ایک وقت آتا ہے جب اللہ کے رسولہجرت کر کے مدینہ شریف تشریف لے جاتے ہیں۔ بدر و احد کے معرکے ہوتے ہیں۔ پھر غزوہ خندق ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ مسلمان غزوہ خیبر کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ اسی دوران اللہ کے رسولنے حبشہ کے مسلمانوں کے لیے دو بحری جہاز ارسال فرمائے کہ اب جبکہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے قوت اور طاقت بخش دی ہے۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم ہو چکی ہے، اب حبشہ کے مہاجرین کو واپس آ جانا چاہیے۔ حبشہ میں اللہ کے رسول کے چچا زاد بھائی سیدنا جعفر بن ابی طالبؓ بھی مقیم تھے۔ عملاً وہی مسلمانوں کے ترجمان اور قائد تھے، نجاشی کو اطلاع دی گئی۔ مسلمانوں نے کتنے ہی سال حبشہ کی سرزمین پر بڑے امن اور چین سے گزارے تھے۔ نجاشی نے بخوشی مسلمانوں کو واپس بھجوانے کے انتظامات شروع کر دیے۔ وہ بھی اسلام قبول کر چکا تھا۔ حبشہ کے ساحل پر دو جہاز لنگر انداز ہو چکے تھے۔ مسلمان مہاجرین اب مدینہ کی طرف دوسری مرتبہ ہجرت کرنے جا رہے تھے۔ ان کو الوداع کرنے کے لیے خود نجاشی بھی آتا ہے۔ سیدناخالد بن سعید ؓکے ساتھ ان کی چھوٹی سی بیٹی امہ بھی اپنے والد کی انگلی پکڑے کھڑی ہے۔ یہ غیر معمولی ذہین و فطین بچی جو حبشی زبان کے کچھ کلمات سیکھ چکی ہے۔
بڑی خوش ہے۔ اس نے دیکھا اور سنا کہ نجاشی قافلہ والوں سے کہہ رہا ہے کہ جب تم مدینہ جاؤ تو اللہ کے رسولکو میرا سلام کہنا۔ امہ نے اس پیغام کو یاد رکھا اور دل میں نیت کر لی کہ جب اللہ کے رسولسے ملاقات ہو گی تو نجاشی کا پیغام وسلام میں انہیں پہنچاؤں گی۔ مسلمانوں کے دونوں جہاز حبشہ سے بخیریت حجاز پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں سے جلیل القدر اصحاب مدینہ کا رخ کرتے ہیں۔ جب اللہ کے رسول خیبر کی فتح سے واپس مدینہ شریف تشریف لائے تو یہ ننھی سی بچی امۃ اللہ کے رسول کو ملتی ہے اور آپ کو نجاشی کا سلام پہنچاتی ہے۔چھوٹی سی بچی، اللہ کے رسولنے اس سے پیار کیا اور ا س کا نام ام خالد رکھ دیا۔ اس معصوم سی بچی کا یہ سلام پہنچانا اللہ کے رسول کو بہت ہی بھلا لگا۔ آپ اس بچی کو یاد رکھتے ہیں ۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ کے پاس کہیں سے کچھ کپڑے آئے۔ آپنے ان کو صحابہ کرام میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ ان کپڑوں میں ایک چادر بہت ہی خوبصورت تھی۔سرخ اور پیلی کڑھائی والی اس سیاہ ریشمی شال کو اللہ کے رسول نے اپنے مبارک ہاتھوں میں لیا اورصحابہ کرام سے پوچھا:تم کسے اس بات کازیادہ حق دار سمجھتے ہوکہ اسے یہ شال پہنائی جائے؟۔ صحابہ کرام احتراماًخاموش ہیں لیکن ذہنوں میں خیال ضرورپیدا ہواکہ وہ کون خوش قسمت ہوگا جسے یہ خوبصورت،جاذبِ نظر اور منقش کپڑا ملے گا۔
صحابہ کرام آپکے چہرئہ اقدس کی طرف دیکھ رہے تھے کہ آپ کیا حکم صادر فرماتے ہیں اور یہ اعزاز کسے ملتا ہے؟خیال رہے کہ اہل اسلام کو اس طرح کا قیمتی کپڑا کبھی کبھار ہی میسر ہوتا تھا۔ ارشاد فرمایا:ام خالد کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔ ایک صحابی دوڑتے ہوئے گئے اور ان کے والد کو بتایا کہ اللہ کے رسول ان کی بچی کو طلب فرما رہے ہیں۔ سیدناخالد بن سعیدؓ اپنی بیٹی کو ساتھ لیے ہوئے جلدی سے اللہ کے رسول کی خدمت میں پہنچے اور ام خالد کو اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کیا۔
قارئین کرام! اللہ کے رسول کے اعلیٰ اخلاق کو ملاحظہ فرمائیں۔ آپ چاہتے تو یہ کپڑا ان کے گھر بھی بھجوا سکتے تھے مگر آپ اپنے مبارک ہاتھوں سے ام خالد کو یہ خوبصورت کپڑا پہنانے کو ترجیح دے رہے ہیںاور اس بچی کی خوشی میں بنفس نفیس شرکت فرما رہے ہیں، صحابہ کرام یہ منظر بڑے شوق سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ ام خالد کو شال پہنا بھی رہے ہیں اور اپنی زبان حق ترجمان سے یہ فرما بھی رہے ہیں: سِنِّئی ام خالد سِنِّئی ام خالد !یہ کپڑا تمھیں بہت جچ رہا ہے، یہ بہت خوبصورت ہے۔ سِنِّئی حبشی زبان میں خوبصورت چیز کو کہتے ہیں۔ چھوٹی سی بچی یہ تحفہ ملنے پر بڑی شاداں وفرحاں ہے۔یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا کہ اللہ کے رسول نے اپنے ہاتھوں سے انھیں کپڑا پہنایا۔
آپ ذرا تصور فرمائیں! ام خالد کو پوری زندگی یہ واقعہ بھولا تو نہ ہوگا کہ اللہ کے رسول نے اسے بچپن میں یہ شال پہنائی تھی۔ رسول اللہ اس بچی کو ایک اور تحفہ دیتے ہیں،آپفرماتے ہیں : تم اس کے پرانا ہونے تک ایک لمبا عرصہ اسے پہنو۔ یعنی برسہا برس تک جیتی رہو۔ دوبارہ پھر یہی ارشاد فرمایا:،تیسری مرتبہ پھر فرمایا: تم اسے پرانا کرو ،بار بار پہنو اور لمبی عمر پاؤ۔ اللہ کے رسول کی ام خالد کے حق میں یہ دعا قبول ہوئی اور انھوں نے بہت لمبی عمر پائی۔ صحابیات میں سب سے آخر میں وفات پانے والی ام خالدؓ ہی تھیں۔ ام خالد اللہ کے رسول کے ہاتھوں تحفہ پاکر بہت خوش ہے، وہ آپ کی پشت پر ابھری ہوئی مہر نبوت کی علامت کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتی ہے۔ ام خالد کے والد اسے منع کررہے ہیں، ڈانٹ رہے ہیں: ام خالد، بیٹی! یہ کیا کررہی ہو؟ مگر اللہ کے رسول کی رحمت اور شفقت کو دیکھئے کہ آپ خالد بن سعیدؓسے فرماتے ہیں:چھوڑ دو خالد! (اسے کھیلنے دو)۔ ام خالد کا جب تک جی چاہا وہ اللہ کے رسول کے جسم اطہر کے ساتھ کھیلتی رہیں۔ سیدنا خالد بن سعید کی مبارک زندگی کے کتنے ہی مزید واقعات تاریخ کی کتب میں موجود ہیں۔