Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریبیز: علامات ظاہر ہو جائیں تو موت کے امکانات ’99 فیصد‘

عالمی ادارہ صحت نے ریبیز کو ’صحت عامہ کا سنجیدہ ایشو‘ قرار دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ریبیز کا لفظ کینسر، ہیپاٹائٹس یا کورونا جتنا خطرناک نہیں لگتا، بالکل ویسے ہی جیسے بعض جانور بے ضرر اور پیارے لگتے ہیں، مگر ایک پہلو ایسا بھی ہے جو اس خیال کو بدل دیتا ہے۔ 
عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر ریبیز کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ میں اس وائرس، اس کی وجوہات، علامات اور بچنے کے اقدامات کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
رپورٹ میں اس کو ’صحت عامہ کا ایک سنجیدہ معاملہ‘ قرار دیا گیا ہے جس کا ڈیڑھ سو سے زائد ممالک کو سامنا ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ایشیا اور افریقہ سے ہے۔

یہ ہے کیا؟

یہ جانوروں کی ایک بیماری ہے جس کی وجہ ایک وائرس ہوتا ہے اور ان کے کاٹنے سے انسانی جسم میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ اس کی ویکسین موجود ہے تاہم اگر علامات ظاہر ہو جائیں تو مہلک ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ وائرس انسان کے اعصابی نظام کو تباہ کر دیتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او انسانوں میں ریبیز کی منتقلی کے ننانوے فیصد کیسز کا ذمہ دار کتوں کو قرار دیتا ہے اور پانچ سے چودہ سال کے بچے زیادہ تر اس کا شکار ہوتے ہیں۔
اس وائرس سے  کتے، بلی اور بعض دوسرے جنگلی جانوروں کے علاوہ مویشی بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس کے ذرات متاثرہ جانوروں کے لعاب ہوتے ہیں جو اس وقت جسم میں منتقل ہو جاتے ہیں جب دانت جسم کے کسی حصے پر گہرا زخم لگا دیں۔ اسی طرح جانوروں کے پنجوں سے لگنے والے زخموں سے بھی اس کے منتقل ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔
 خطرناک ترین پہلو
ویسے تو ریبیز کو ویکسین کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے تاہم اس کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ اگر ایک بار اس کی علامات ظاہر ہو جائیں تو پھر موت واقع ہونے کے امکانات ننانوے فیصد تک ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس سے قبل پی ای پی ( پرومپٹ پوسٹ ایکسپوژر پرفائلیکسز) کی مدد سے زندگی بچائی جا سکتی ہے جس میں وائرس کو اعصابی سسٹم تک پہنچنے سے روکا جاتا ہے۔
اس طریقہ علاج میں زخموں کو اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے، ویکسین کا کورس کروایا جاتا ہے اور امیونوگلوبولنز دیے جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے اگر کسی کو ریبڈ جانور کاٹ لے یا پھر اس کے پنجوں سے زخم لگ جائے تو اس کو فوری طور پر طبی امداد لینی چاہیے۔

ریبیز کی ویکسین موجود ہے مگر علامات ظاہر ہونے کے بعد علاج مشکل ہو جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سالانہ 59 ہزار ہلاکتیں

عالمی سطح پر ریبیز کے علاج اور دوسرے معاملات سے جڑے سالانہ اخراجات کا تخمینہ کم و بیش آٹھ ارب ساٹھ کروڑ ڈالر ہے۔
ریبیز سوائے انٹارکٹکا کے ہر براعظم میں موجود ہے اور اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تقریباً 59 ہزار افراد اس کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تاہم ماہرین یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ چونکہ تمام واقعات رپورٹ ہوتے ہیں نہ سامنے آتے ہیں اس لیے حقیقت میں ہونے والی اموات کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے ریبیز کو این ٹی ڈی (نیگلکٹڈ ٹروپیکل ڈیزیزز) میں شامل کر رکھا ہے جن کا زیادہ تر نشانہ غریب لوگ بنتے ہیں۔
اگرچہ ریبیز کی ویکسین موجود ہے اور اس کے علاج کے طور پر امیونوگلوبولنز بھی استعمال کیے جاتے ہیں تاہم یہ چیزیں زیادہ تر ان ممالک یا علاقوں میں نہیں پہنچ پاتیں جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہر سال تقریباً تین کروڑ افراد ریبیز کی ویکسین لگواتے ہیں۔

چمگادڑ، ’ایک نیا خطرہ‘

عام طور پر ریبیز کو جانوروں تک ہی محدود کیا جاتا ہے تاہم کچھ عرصہ سے ایسے کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں جن میں ریبیز کسی چمگادڑ کی وجہ سے منتقل ہوئے۔

چمگادڑ سے انسانوں میں ریبیز کی منتقلی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

رپورٹ کے مطابق امریکہ میں تقریباً تمام ہی کتوں کی ویکسینیشن کروائی جاتی ہے تاہم وہاں، آسٹریلیا اور مغربی یورپ میں پائی جانے والی ہیماٹوفیگس نامی چمگادڑ ریبیز پھیلانے کا باعث بن رہی ہے اور اس کے ایک نئے خطرےکے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
لومڑیوں، ریکونز اور دیگر ممالیہ جنگلی جانوروں کے باعث ہونے والی ریبیز کے کیسز میں انسانی اموات کی تعداد بہت کم ہے تاہم بعض اقسام کے چوہوں میں بھی ریبیز پائے جانے کے امکانات ظاہر کیے جاتے ہیں تاہم ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔

ریبیز کا شکار دوسرے انسان کو متاثر کر سکتا ہے؟

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگرچہ اس کے امکانات ہو سکتے ہیں کہ ریبیز کے شکار شخص کے لعاب یا دانتوں کے کاٹنے سے وائرس کسی اور انسان میں منتقل ہو جائے تاہم ابھی حتمی طور پر اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
علامات کیا ہوتی ہیں؟
ریبیز کی ابتدائی علامت میں بخار محسوس ہونا ہے، اسی طرح جسم میں درد بھی ہوتا ہے اور زخم کی جگہ پر غیرمعمولی جلن یا چبھن بھی ہوتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کتوں کو جان سے مارنا معاملے کا موثر حل نہیں (فوٹو: اے ایف پی)

جیسے جیسے وائرس اعصابی نظام میں منتقل ہوتا ہے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں سوزش پیدا ہوتی جاتی ہے۔
ویب سائٹ میڈیکور کے مطابق شروع میں علامات عام طور پر مبہم ہوتی ہیں اور دوسری قسم کی ہلکی بیماریوں کے ساتھ آسانی سے الجھ جاتی ہیں۔ اس کی  علامات فلو سے ملتی جلتی ہو سکتی ہیں۔ اس کے بعد سامنے آنے والی علامات میں سردر، بخار، بے چینی، قے، متلی، خوراک نگلنے میں دشواری، منہ میں ضرورت سے زیادہ تھوک پیدا ہونا شامل ہے جبکہ مریض کو پانی اور تازہ ہوا سے بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔

بچاؤ اور علاج

جانوروں کی باقاعدگی سے ویکسینیشن ضروری ہے، اسی طرح عوام الناس اور خاص طور پر بچوں کو اس سے بچاؤ کے بارے میں بتانا چاہیے اگر ایسا ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے۔
اپنے پالتو جانور کو باہر کے جانوروں سے گھلنے ملنے کا زیادہ موقع نہ دیں کیونکہ ان میں سے کوئی متاثرہ ہو سکتا ہے۔
اسی طرح بڑے پیمانے پر کتوں کو ویکسین لگانے کی منصوبہ بندی بہت اہم ثابت ہوتی ہے، عالمی ادارہ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ عام گلیوں میں کتوں کو مارنے کا عمل وائرس کے تدارک کے لیے زیادہ موثر عمل نہیں ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق بلی اور کچھ دوسرے جنگلی جانور بھی ریبیز کی منتقلی کا باعث بن سکتے ہیں (فوٹو: سٹاک)

اس کے لیے موثر ویکسینیشن کا پروگرام موجود ہے جس میں بچاؤ کی ویکسین اور کاٹے جانے کے بعد کی ویکسین بھی شامل ہے جبکہ ادویات بھی موجود ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اس وقت مصدقہ تین قسم کی ویکسینز ہیں اور دنیا بھر میں دستیاب ہیں۔ ان میں سیروم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کی ریبی ویکس، زائڈس لائف سائنسز لیمیٹڈ کی ویکسی ریب این اور سانوفی پیسچر کی ویرو ریب شامل ہیں۔
ریبیز کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ہر سال اٹھائیس ستمبر کو ریبیز کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

شیئر: