چائے بمقابلہ کافی: آپ کس کے ساتھ ہیں؟
کافی والوں کے رویے نے چائے والوں کو اعلان جنگ پر مجبور کیا (فوٹو سوشل میڈیا)
چائے پینے والے خود کو چست اور متحرک رکھنے کا کریڈٹ اپنے پسندیدہ مشروب کو دیتے ہیں تو دوسری طرف کافی کے فینز اسے ذائقے سمیت دیگر اسباب کی وجہ سے ترجیح دیتے ہیں۔
چائے اور کافی پینے والوں کا یہ معاملہ یونہی جاری رہتا ہے بلکہ خیرسگالی کے اظہار کے طور پر گاہے بگاہے ایک دوسرے کو اپنے پسندیدہ مشروب سے استفادہ کرنے کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں تاہم کبھی کبھی معاملہ الٹ بھی جاتا ہے۔
سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر اس مرتبہ چائے اور کافی کو پسند کرنے والوں کی گفتگو کیا شروع ہوئی ایک ہلکا پھلکا سا لفظی مقابلہ شروع ہو گیا جو اپنے محبوب مشروب کی صفات کے بیان اور دوسرے کے مشروب کی شان کم ثابت کرنے کا رنگ اختیار کرنے سے بھی باز نہ رہ سکا۔
ٹیلی ویژن میزبان قطرینہ حسین نے اپنی ایک ٹویٹ میں چائے اور کافی کا ذکر کیا تو ساتھ ہی لکھا ’میں کافی پسند کرنے والوں کی جانب سے چائے پینے والوں کے متعلق اپنائے گئے رویے سے نالاں ہوں۔ میں چائے پسند کرتی اور اس پر فخر کرتی ہوں۔ جنگ شروع ہونے دیں، چائے کے دفاع میں کون میرے ساتھ ہے؟‘
حالات حاضرہ کے پروگرام کی میزبان نسیم زہرہ نے چائے کے تحفظ کے لیے ہونے والے 'اعلان جنگ' کے جواب میں براہ راست للکارنے کے بجائے باالواسطہ حکمت عملی اختیار کی تو قطرینہ حسین کو باور کرایا کہ ’آپ کی جنگ ہمارے خلاف ہے۔‘
سینیٹر شیری رحمن بھی 'میدان جنگ' میں اتریں اور بحث کا حصہ بن گئیں۔ وہ بھی کافی کی بالادستی کی خواہاں دکھائی دیں۔
دو خواتین ٹیلی ویژن میزبانوں اور ایک خاتون سینیٹر کی جانب سے 'طبل جنگ' بجنے اور جوابی للکار کے بعد معاملہ رکا نہیں بلکہ کامیابی کی کوششیں مزید آگے بڑھیں۔
ایک اور ٹیلی ویژن اینکر فریحہ ادریس میدان میں اتریں تو انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر چائے پسند کرنے والوں کے لشکر کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
چائے بمقابلہ کافی کے معرکے میں ابتدائی صفیں خواتین نے سنبھالیں تو ٹیلی ویژن پریزینٹر علینہ فاروق شیخ بھی ’ہمیشہ چائے‘ کے نعرے کے ساتھ سامنے آئیں۔
ارسلان سامنے آئے تو انہوں نے کوشش کی کہ کشیدگی میں کچھ کمی لائی جائے، اسی جذبے کا اظہار ان کی ٹویٹ کے الفاظ سے ہوا۔ ’بین الکیفین ہم آہنگی‘ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے دونوں سے اپنی محبت کا اعتراف کر لیا۔
ایک صارف عبدالرشید نے للکارنے کے لیے شاعری کا سہارا لیا تو ’اس طرح بڑھتا رہے چائے پہ دل کا یقین‘ کہہ کر اپنے عزائم کا اظہار کیا۔ وہ یہاں رکے نہیں بلکہ میدان میں چائے بہا کر اپنے جذبات کا ثبوت بھی پیش کیا۔
ذرائع ابلاغ سے وابستہ فائزہ داؤد نے صفوں کا جائزہ لیا تو 'چائے کے لشکر' کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ‘ہمیشہ سے چائے کا ایموجی مطلوب ہے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے ہیش ٹیگ کی صورت نعرہ بلند کیا تو کافی نہیں چائے کی صدا بھی گونجی۔
کرکٹ مبصر عالیہ رشید معرکے کا حال دیکھ کر بغیر کچھ کہے ہاتھ اٹھائے غیر مشروط طور پر چائے کے دفاع میں ترتیب پانے والی سائبر صف کے ساتھ آ ملیں۔
فائقہ سلمان اپنی کچھ شرائط کے ساتھ سامنے آئیں اور کم دودھ، کم میٹھے والی چائے کے لیے آخری سانسوں تک جدوجہد کا اعلان کیا۔ چائے کا ایموجی نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بھی ’جنگ شروع‘ کرنے کی صدا کا ساتھ دیا۔
مسرور نامی صارف نے اپنی موجودگی کا اعلان کیا تو چائے اور کافی کے نسبتا نئے معنی کی نشاندہی کرتے ہوئے ’محبت‘ اور ’اختتام‘ کی شکل میں انتخاب آسان کرنے کی کوشش کی۔
کچھ صارفین نے کوشش کی کہ وہ کسی ایک لشکر کا انتخاب کرنے کے بجائے دونوں کے لیے اپنی چاہت کا اظہار کریں تاہم ایسی کوشش پر واضح کر دیا گیا کہ ’آپ کو انتخاب کرنا ہو گا، جنگ میں آپ نیوٹرل نہیں رہ سکتے۔‘
ایک صارف عمر نے چائے اور کافی سے جسم کو حاصل ہو سکنے والی کیفین کی مقدار اور جسمانی وزن کے ساتھ اس کے تناسب کا معاملہ واضح کرنے کے بعد تسلی دلائی کہ ایک ہی دن دونوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سوشل ٹائم لائنز پر چائے کے چاہنے والوں پر مشتمل لشکر کی واضح برتری اور کافی کے خواہشمندوں کی جانب سے اپنے درست ہونے کا یقین لیے لفظی جنگ بغیر کسی فیصلے کے ابھی جاری ہے۔ ایسے میں کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ذائقے، پسند، سہولت اور دستیابی کی خوبیاں رکھنے والے دونوں مشروبات کو چاہیں تو مقابل لے آئیں اور چاہیں تو ایک ہی کچن میں جگہ دے کر دونوں سے مستفید ہو لیں۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں