کارڈیالوجسٹ جن کے 'میمز میں بھی شفا ہے'
زیادہ تر وٹس ایپ گروپس میں غیر متعلقہ مواد کی شیئرنگ عام بات ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سوشل میڈیا باالخصوص وٹس ایپ اور ملتے جلتے پلیٹ فارمز پر بنے گروپس کی سرگرمیوں کو اصل مقصد تک محدود رکھنا تقریباً ناممکن سا ہدف لگتا ہے۔ ان گروپس کے ارکان ٹین ایجر ہوں یا اچھے خاصے پڑھے لکھے اور بڑھی عمر کے افراد، ہر صورت میں کوئی نا کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جو ہر لمحے گفتگو کا رخ بدلنے کو تیار رہتا ہے۔
یکسوئی، موضوع تک محدود رہنے کے خواہشمند گروپ ممبرز ہوں یا وہ ذمہ داران اور ایڈمنز جو مختلف اقسام کے گروپس کے ذریعے مخصوص اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں سمت درست رکھنے کی اپنی ہر کوشش کی ناکامی پر نئی جھنجھلاہٹ کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
معروف میسیجنگ ایپلیکیشن وٹس ایپ اور اس کے گروپس کے متعلق ایسی ہی ایک گفتگو سوشل میڈیا ٹائم لائنز کی زینت بنی تو بہت سے صارفین نے ناصرف اسے اپنے لائکس اور ری ٹویٹس کی مدد سے آگے بڑھایا، بلکہ اچھی خاصی تعداد میں یوزرز نے اس موضوع پر اپنے تجربات بھی دوسروں سے شیئر کیے۔
احمر نقوی نامی صارف نے ایک ہسپتال میں خدمات سرانجام دینے والی اپنی والدہ کے حوالے سے ایک وٹس ایپ گروپ کا ذکر کیا۔
ان کے بقول اس گروپ میں ہیلتھ پروفیشنلز، اعلیٰ حکومتی شخصیات اور پبلک ہیلتھ ماہرین شامل ہیں۔ کورونا وائرس کی صورتحال میں ہر وقت یہاں اس وبا سے نمٹنے پر گفتگو ہوتی ہے لیکن کراچی کے ایک بڑے ماہر امراض قلب یہاں میمز شیئر کرتے رہتے ہیں۔
ایک الگ ٹویٹ میں انہوں نے لکھا ’واضح رہے کہ میں تنقید نہیں کر رہا۔ یہ لوگ بہت مشکل صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، یہ میرا کام نہیں کہ انہیں بتاؤں کہ صورتحال سے کیسے نمٹیں؟‘
اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے سوات سواگ نامی ہینڈل نے لکھا ’ہمیشہ ایک فرد ایسا ہوتا ہے جو گروپ میں عجیب و غریب اور غیر متعلقہ مواد پوسٹ کرتا رہتا ہے۔‘
گفتگو مزید آگے بڑھی تو اس نکتے کا اضافہ بھی ہوا کہ جو لوگ اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو الگ نہیں رکھ سکتے ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اگر غیر متعلقہ مواد مزے کا ہو تو چل جاتا ہے۔
حارث گروپس میں غیر متعلق مواد کو قابل قبول سمجھنے کے خیال کے ساتھ سامنے آئے تو انہوں نے لکھا کہ ’دونوں چیزیں ایک ہی وقت میں کیوں نہیں چل سکتیں۔‘
البتہ زبیر رضوی غیر متعلقہ مواد کو برداشت کرنے کے خیال سے متفق دکھائی نہ دیے، انہوں نے یہ کہہ کر اس کا اظہار بھی کیا کہ ’نازک معاملے سے متعلق گروپ میں اس طرح کرنا پروفیشنل تقاضوں کے برخلاف ہے۔‘
حماد الرحمن غیرمتعلقہ مواد شیئر کرنے کی ایک نئی وجہ کے ساتھ سامنے آئے تو اصل مقصد تک محدود نہ رہنے والوں کے لیے گروپ سے بیدخلی کی سزا بھی تجویز کر گئے۔
ووہی نامی ہینڈل نے معاملے کے ایک الگ پہلو کی نشاندہی کی تو لکھا ’میمز شیئر کرنے والے شخص کارڈیالوجسٹ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ دلوں کو کیسے متحرک رکھا جائے۔‘
عمارہ حکمت ماہر امراض قلب کی وٹس ایپ سرگرمی سے متفق دکھائی دیں تو انہوں نے تبصرہ کیا کہ ’وہ زبردست کام کر رہے ہیں۔‘
گفتگو کے دوران صارفین کیپٹن امریکہ پر بنی دیگر میمز شیئر کرتے رہے تو کسی نے طبی عملے کو ہلکے پھلکے لمحات مہیا کرنے پر میمز والے کارڈیالوجسٹ کا شکریہ ادا کیا۔ علی اکرمہ ایک قدم آگے بڑھے تو انہوں نے لکھا ’ان کے میمز میں شفا ہے۔‘
جبران صدیقی نامی صارف نے ماہر امراض قلب کی مزید میمز شیئر کرنے کا تقاضا کیا تو احمر نقوی نے جواب دیا کہ ’امی سے کہوں گا کہ وہ فارورڈ کریں‘۔
گفتگو آگے بڑھتی دیکھ کر اسے شروع کرنے والے احمر نقوی نئی اپ ڈیٹ کے ساتھ سامنے آئے تو انہوں نے لکھا ’وہ (میمز شیئر کرنے والے معالج) ٹویٹ اور لوگوں کی اس میں دلچسپی کے متعلق جان گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اس طرح سٹریس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں