پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے بچوں کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر بیچنے والے مجرم سعادت امین کی سزا کے خلاف نظر ثانی اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے ٹرائل کورٹ کی سزا کو بحال رکھا ہے۔
اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ نے 14 جون کو مجرم کی درخواست پر سزا معطل کر کے اسے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
آج 19 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے مجرم کی مرکزی اپیل کی سماعت کی۔ اس دوران سعادت امین کی طرف سے ان کے وکیل رانا ندیم احمد نے عدالت میں دلائل دیے کہ مقدمے میں بے انتہا نقائص ہیں۔
مزید پڑھیں
-
بچوں کو بلیک میل کرنے والا ملزم گرفتارNode ID: 430716
-
’ملزم کا پانچویں بچے سے زیادتی کا اعتراف‘Node ID: 437696
-
بچوں سے زیادتی، پھانسی کی قرارداد منظورNode ID: 457621
انہوں نے کہا کہ جس شخص کی ایما پر یہ مقدمہ بنایا گیا وہ ناروے کا شہری ہے اور ٹرائل کورٹ نے ان کے بیانات قلم بند نہیں کیے اور نہ جرح کی گئی۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ان کے موکل پر سائبر کرائم کے جرم کا اطلاق نہیں ہوتا۔
وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتیاق اے خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ناروے کی پولیس مقدمے کی مدعی نہیں وہاں سے صرف معلومات لی گئیں، مقدمے کی مدعی وفاقی حکومت ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مجرم کے قبضے سے بچوں کی 6 لاکھ 57 ہزار نازیبا ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پریوینشن آف الیکٹرانک ایکٹ 2016 کے سیکشن 22 کے تحت ایسے مواد کا کسی کی تحویل میں ہونا ایک جرم ہے جس کی سزا 7 سال ہے۔

ان کے بقول وکیل دفاع کی بات اگر تسلیم بھی کر لی جائے کہ مواد کو ناروے منتقل کرنے سے متعلق مقدمہ نہیں چلایا گیا تو مواد کا مجرم کے پاس موجود ہونا ہی سزا کے لیے کافی ہے۔
مقدمہ سننے والے جج جسٹس فاروق حیدر نے دونوں اطراف کے دلائل کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے مجرم سعادت امین کی سزا کے خلاف نظر ثانی اپیل خارج کر دی اور ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی سات سال کی سزا بحال رکھی۔
مجرم کی ضمانت کیوں ہوئی تھی؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتیاق اے خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مجرم کے وکیل نے تکنیکی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست دائر کی تھی۔
'ایک تو مجرم جیل میں آدھی سے زائد سزا کاٹ چکا تھا اور ابھی تک اس کی کریمینل رویژن یعنی نظر ثانی کی اپیل سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔ تو ایسی صورت حال میں مجرم قانون میں موجود چھوٹ کا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور سزا معطلی کا قانونی حق استعمال کر سکتے ہیں۔‘
اشتیاق اے خان نے بتایا کہ سزا معطلی کی درخواست میں مقدمے کے حقائق کے برعکس صرف تکنیکی پہلوؤں کی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا ہے، اور اس مقدمے میں بھی ایسا ہی ہوا۔
