وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد حکومت نے شوگر بحران پر فارنزک رپورٹ شائع کر دی ہے۔ فرانزک رپورٹ نے ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات کی تصدیق کر دی ہے اور ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار شوگر ملز مالکان کو ٹھہرایا ہے جس میں جہانگیر ترین سمیت حکومتی اور اپوزیشن کی سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں حکومتی اداروں جیسے ایف بی آر، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایس ای سی پی کو بھی ذمہ دار گرادنتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے۔
مزید پڑھیں
-
چینی: رپورٹ میں سیاسی خاندانوں کے نام
Node ID: 469496
-
جہانگیر ترین کی 'چھٹی'،کابینہ میں تبدیلیاں
Node ID: 469901
-
چینی تحقیقات: ممکنہ قانونی کارروائی کیا؟
Node ID: 469961
رپورٹ میں کہا گیا کہ دسمبر 2018 کے بعد چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا جو کہ اگست 2019 تک جاری رہا اور چینی کی قیمت 51.6 روپے سے 68.6 روپے تک پہنچ گئی۔
اس سال فروری کے بعد چینی کی فی کلو کارخانہ اور پرچون قیمت میں پھر اضافہ ہوا پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے جنوری میں جزوی ہڑتال کی گئی جو اتفاقاً انہیں دنوں میں سامنے آئی جب حکومتی تحقیقات کا فیصلہ ہوا۔ شوگر ملز والوں کا موقف تھا کہ گنے کی رسد میں کمی ہوئی ہے اور کاشتکاروں نے ریٹ بڑھا دیا ہے جبکہ رپورٹ کے مطابق گنے کی پیداوار اس سال گذشتہ سال کے مقابلے میں 67.7 میٹرک ٹن یا ایک فیصد بڑھی۔
رپورٹ کے مطابق ملک کی 88 شوگر ملون کے اعداد و شمار میں گنے کی پیداوار کم دکھائی گئی اور پیداوار کا قریب ایک چوتھائی حصہ مخفی رکھا گیا۔ کمیشن کے مطابق پیداوار ملکی ضرورت کے لیے کافی تھی اور اس میں کمی کا کوئی امکان نہیں تھا اور چینی کی قیمت میں اضافے کا باعث پیداوار کی کمی نہیں تھی۔
چینی کمیشن کی تحقیقات اور فرانزک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ تمام شوگر ملز کاشتکاروں کو حکومت کی طرف سے مقرر گئی گنے کی امدادی قیمت یعنی 180 روپے فی من سے بھی کم ادائیگی کرتی رہیں اور انہیں صرف 140 روپے فی من کی ادائیگی کی گئی۔ کین کمشنر اور متعلقہ ڈپٹی کمشنر کاشتکاروں کی حق تلفی روکنے میں ناکام رہے۔
فرانزک آڈٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ شوگر ملیں چینی کی فی کلو قیمت میں اضافے کے لیے اپنے اخراجات بڑھا کر دکھاتے ہیں جبکہ کمیشن نے جب آئی ایف آر ایس اصولوں کے مطابق آزادانہ طور پر چینی کی فی کلو پیداواری لاگت کا اندازہ لگایا تو یہ لاگت صرف 38 روپے فی کلو (برائے سال 2017-18) اور 40 روپے فی کلو برائے سال 2018-19 نکلی جبکہ شوگر ملوں نے اس کی قیمت 50 روپے فی کلو ظاہر کی۔
جہانگیر ترین کا ردعمل
رپورٹ پر اپنے ردعمل میں پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین نے ٹویٹ کیا کہ ’جھوٹے الزامات پر مجھے دکھ ہوا۔ میں نے ہمیشہ شفاف طریقے سے کاروبار کیا ہے۔ پورا پاکستان جانتا ہے کہ میں ہمیشہ کاشت کاروں کو پوری قیمیت ادا کرتا ہوں۔ میں دو بکس نہیں رکھتا اور اپنے تمام ٹیکسز ادا کرتا ہوں۔ میں ہر الزام کا جواب دوں گا اور ان سے بری ہو جاؤں گا۔‘
واضح رہے کہ ملک میں آٹے اور چینی کے بحران کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے ایف آئی اے کو فارنزک تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ جمعرات کو کابینہ نے فارنزک رپورٹ کو پبلک کرنے کی منظوری دی۔
I am shocked at the kind of false allegations levelled against me. I have always run a clean business. All Pakistan knows I always pay full price to my growers. I DO NOT maintain 2 sets of Books. I pay all my taxes diligently. I will answer every allegation and be vindicated IA.
— Jahangir Khan Tareen (@JahangirKTareen) May 21, 2020