کیا ایئر کنڈیشنرز کورونا کو پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں؟
کیا ایئر کنڈیشنرز کورونا کو پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں؟
ہفتہ 30 مئی 2020 15:39
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پاکستان میں لاک ڈاؤن عملی طور پر ختم ہونے کے بعد اب ہر طرح کے کاروبار آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز کو بھی گاہکوں کے لیے کھول دیا گیا ہے جبکہ ریستوران کھولنے کی بات بھی چل رہی ہے۔ ایسے میں کئی خدشات بھی سر اٹھا رہے ہیں کہ عوامی اجتماعات کی جگہوں پر ایئر کنڈیشنرز کی وجہ سے کورونا کے پھیلاؤ میں مزید تیزی آسکتی ہے۔ ان خدشات کی بنیادی وجہ چین کے شہر گوانزو میں پیش آنے والا واقعہ ہے جہاں ایک ہی ریستوران میں کئی افراد کورونا کا شکار ہوئے۔مزید پڑھیں
تئیس جنوری کو جب یہ افراد ریستوران سے کھانا کھا کر اٹھے تو اس کے بعد ارد گرد کے افراد بھی کورونا کی زد میں آ گئے۔ جس کے بعد ابتدائی تحقیقات میں اس ریستوران میں لگے ایئر کنڈیشنڈ سسٹم کو کورونا پھیلانے کی وجہ قرار دیا گیا۔
اس کے بعد دنیا بھر میں اس خبر کا چرچا ہوا تاہم اس طرح کا کوئی دوسرا ملتا جلتا واقعہ رپورٹ نہیں۔ اور دنیا بھر میں اس موضوع پر تحقیقات کا عمل جاری ہے۔
کھانا کھانے والے افراد میں ایک خاندان ووہان سے ریسٹورنٹ پہنچا تھا جن میں ایک بڑی عمر کی خاتون میں کورونا وائرس موجود تھا تاہم ان میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی امریکہ میں بھی ایئر کنڈیشنر سے بیماری پھیلنے کی حقیقت پر تحقیقات جاری ہیں۔
ایئر کنڈیشنر کیسے کورونا پھیلا سکتا ہے؟
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے سیکرٹری برائے پرائمری اینڈ سکینڈری صحت کیپٹن ریٹائرڈ عثمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس تھیوری کی بڑی وجہ سینٹرل ایئر کنڈیشنڈ جگہوں میں تازہ ہوا کے آنے کے نظام کا موجود نہ ہونا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'چونکہ مرکزی ایئر کنڈیشنر میں ہوا سرکولیٹ کرتی ہے جو ہوا اس بند جگہ پر موجود ہوتی ہے اسی کو دوبارہ کھینچ کر اور ٹھنڈا کر کے واپس منتقل کرتا ہے چونکہ اس سسٹم میں فلٹرز لگے ہوتے ہیں اور یہ وائرس اس میں سٹور رہ سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہی وائرس کسی اور مرحلے پر اندرونی سرکولیشن میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے۔ ’اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ سینٹرل ایئر کنڈیشنڈ سسٹم نہ چلائے جائیں لیکن اگر ان کا چلانا ناگزیر ہو تو ان کے فلٹرز کو بار بار جراثیم کش محلول سے دھویا جائے۔‘
’ہم نے شاپنگ مالز کو کھولنے کی اجازت دی ہے اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شاپنگ مالز اگر اپنے اے سی سسٹم بند کر دیں تو گھٹن ہو جائے گی کیونکہ بڑی بڑی عمارتیں ہیں اور ان میں ہوا کی آمد و رفت کا کوئی نظام نہیں۔ ہمارے اجازت نامے میں واضح ہدایات ہیں کہ ہفتے میں تین دن اپنے فلٹرز کو صاف کریں اور انہیں کلورین محلول سے دھوئیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کرنے سے کسی بھی طرح کی وائرس کی سرکولیشن کو روکا جا سکتا ہے۔‘
علامہ اقبال میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرحان رشید جو کہ مائیکرو بائیولوجی کے ماہر استاد ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ’ابھی حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایئر کنڈیشنڈ کورونا کو پھیلانے کا بڑا سبب بن سکتے ہیں۔ حکومت تو اس لیے بھی اقدامات کر رہی ہے کہ چونکہ کورونا کے معاملے میں ابھی کوئی بات بھی حتمی نہیں اس لیے زیادہ سے زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔‘
کورونا وائرس چونکہ ایک ڈراپ لیٹ انفیکشن ہے اور زیادہ سے زیادہ یہ چھ فٹ تک ہوا میں معلق رہ سکتا ہے۔ میرے خیال میں اے سی کے ذریعے وائرس پھیلنے کے امکانات محدود ہیں اب چونکہ چین میں واقعہ ہوا ہے اس لیے اس پر تحقیقات بھی جاری ہیں۔ اگر آپ دیکھیں جس ریستوران میں تین میزوں پر بیٹھے افراد کو کورونا ہوا جبکہ 81 لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسی وقت کھانا کھایا ان کو کورونا کم از کم اس وقت نہیں ہوا لہٰذا ابھی اس پر مزید تحقیق کی گنجائش موجود ہے۔
دنیا بھر کی اے سی بنانے والی صنعت نے ان خبروں کو سنجیدگی سے لیا ہے امریکن سوسائٹی آف ہیٹنگ اینڈ ایئر کنڈیشننگ انجینیئرز نے تو باقاعدہ طور پر ٹاسک فورس برائے وبائی امراض بنا دی ہے جس میں اس صنعت سے وابستہ سائنس دانوں کو اے سی کے ذریعے وبا پھیلنے سے متعلق خدشات پر تحقیقات کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے، تاہم تحقیقات کے مکمل ہونے تک سب کا اسی بات پر اکتفا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔