جارج فلوئیڈ کے قتل کے خلاف احتجاج کی گونج فلسطین میں
امریکی سیاہ فاموں سے یکجہتی کے لیے فلسطینی احتجاج کو مثبت عمل قرار دیا گیا (فوٹو سوشل میڈیا)
امریکہ میں پولیس تشدد سے ہلاک ہونے والے نہتے جارج فلوئیڈ اور سیاہ فام افراد سے اظہار یکجہتی کے لیے ہونے والے ’بلیک لائیوز میٹر‘ احتجاج کا سلسلہ سوشل میڈیا صارفین کے بقول فلسطین تک پہنچ چکا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر متعدد صارفین نے ایسی تصاویر شیئر کی ہیں جن میں فلسطینیوں کو احتجاج کرتے دکھایا گیا ہے۔ مختلف صارفین کی جانب سے شیئر کی گئی تصاویر کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ یہ فلسطینی علاقے حیفہ میں امریکی سیاہ فاموں سے یکجہتی کے لیے ہونے والے احتجاج کے مناظر ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینی حصوں کو الگ کرنے کے لیے قائم کی گئی دیوار کی ایک تصویر بھی زیرگردش ہے جس میں امریکی سیاہ فام جارج فلوئیڈ کو مخصوص فلسطینی گلوبند پہنے دکھایا گیا ہے اور پس منظر میں فلسطین کا جھنڈا ہے۔
خود کو فسلطینی بتانے والے اکاؤنٹس سمیت متعدد غیر ملکی اکاؤنٹس سے شیئر کی جانے والی تصویر کے متعلق کہا گیا کہ یہ فلسطینی آرٹسٹ ولید ایوب نے بنائی ہے۔
چند صارفین نے دعویٰ کیا کہ یہ تصویر اصل نہیں بلکہ ایڈیٹنگ سافٹ ویئرز کی مدد سے تیار کی گئی ہے البتہ بیشتر ایسے تھے جو اسے اصل قرار دے کر اس کے ذریعے دیے گئے پیغام کو مثبت قرار دیتے رہے۔
ویئر دی پیس نامی ہینڈل نے فلسطینی آرٹسٹ کی کاوش سے ملتی جلتی شام سے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی جاری کردہ ایک تصویر بھی شیئر کی اور ساتھ لکھا ’فلسطین سے شام تک ہم جارج فلوئیڈ کے ساتھ ہیں۔‘
فلسطینی سول سوسائٹی اداروں کے اتحاد بی ڈی ایس نیشنل کمیٹی کے تحت بھی امریکی سیاہ فاموں سے یکجہتی کے لیے احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ فلسطینیوں کے اظہار یکجہتی پر گفتگو کرنے والے صارفین کا کہنا تھا کہ سیاہ فام اور فلسطینی ایک ہی جیسے مسائل کا شکار ہیں اس لیے انہیں ایک دوسرے کی پریشانیوں کا ادراک بھی ہے۔
فلسطینی کارٹونسٹ محمد صبانح نے اپنی ایک ٹویٹ میں امریکی نسل پرستی اور اسرائیلی قبضے کو یکساں قرار دیا۔
سند نامی صارف احتجاج کی تصاویر کے ساتھ سامنے آئے تو انہوں نے لکھا ’ہم ظلم کے مقابل اکٹھے کھڑے رہیں گے‘۔ ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ یہ حیفہ میں فلسطینیوں کی جانب سے امریکی مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے آج ہونے والے پروگرام کے مناظر ہیں۔
لیلی یزان نامی صارف نے اپنی ٹویٹ میں اسرائیلی فوجیوں تلے دبے ایک فلسطینی کی تصویر شیئر کی تو ساتھ لکھا ’یہ سب کچھ فلسطین میں ہر روز ہوتا ہے لیکن وہ خاموش ہیں۔ ہم سانس نہیں لے سکتے، فلسطین کو آزاد کیا جائے‘۔
جارج فلوئیڈ سے متعلق امریکی سوشل میڈیا صارفین کی اپ ڈیٹس میں کہا گیا تھا کہ جب پولیس اہلکار نے سڑک پر گرا کر اپنا گھٹنا سیاہ فام شخص کی گردن پر رکھا تو اس کے آخری الفاظ میں یہ جملہ بھی شامل تھا کہ ’میں سانس نہیں لے پا رہا‘۔
’بلیک لائیوز میٹر‘ اور ’فلسطینی لائیوز میٹر‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹس کرنے والے صارفین فلسطینیوں سے روا رکھے جانے والی بدسلوکی اور اسرائیلی حکومت و فورسز کے اقدامات کا ذکر بھی کرتے رہے۔
عامرہ نامی صارف نے حیفہ کے احتجاج سے منسوب ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’بلیک لائیوز میٹر سے اظہار یکجہتی کے لیے فلسطینیوں کا احتجاج دل چھو لینے والا ہے۔۔۔۔ اگر آپ نے بی ایل ایم کو سپورٹ نہ کیا تو آپ کے پاس کوئی جواز نہیں ہو گا‘۔
سیاست سے متعلق موضوعات پر اپنے فن کو استعمال کرنے والے برازیلین پولیٹیکل کارٹونسٹ کارلوس لیطف نے اپنی ٹویٹ میں افریقی امریکنز اور فلسطینیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ’دونوں جانتے ہیں کہ ریاستی دہشت گردی کیا ہوتی ہے‘
گفتگو میں شریک کچھ افراد دو برس قبل جون کی یکم تاریخ کو غزہ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والی فلسطینی لڑکی رزان النجار کی تصاویر بھی شیئر کرتے رہے۔
قبل ازیں 30 جون کو جاری کردہ ایک بیان میں فلسطینی سول سوسائٹی اتحاد بی این سی کا کہنا تھا کہ فلسطینی دنیا بھر میں جہاں بھی ہیں وہ ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے مظاہرین سے اظہار یکجہتی کریں گے۔ بیان میں تلقین کی گئی تھی کہ ظلم کے نظام کو مضبوط کرنے والے اداروں، بینکوں اور کارپوریشنز کا بائیکاٹ کیا جائے۔