Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پرندوں نے پنجرہ چھوڑا اور رُوح نے جسم‘

کمسن ملازمہ تشدد کا شکار ہونے کے بعد جانبر نہ ہو سکی (فوٹو: سوشل میڈیا)
راولپنڈی کے علاقے بحریہ ٹاؤن میں کمسن گھریلو ملازمہ تشدد کے بعد زخموں سے جانبر نہ ہو سکی اور انتقال کر گئی۔ معاملے کی تفصیل سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے فراہمی انصاف کا مطالبہ کیا تو غم و غصہ کا اظہار بھی کیا جاتا رہا۔
پولیس سے منسوب اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ آٹھ سالہ زہرہ جس گھر میں ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی وہاں اس سے پنجرے میں بند کچھ پرندے آزاد ہو گئے۔ اس عمل پر غصے کا شکار میاں بیوی نے کمسن ملازمہ کو پیٹا جس سے وہ زخمی ہوئی۔ زہرہ شاہ کو ہسپتال پہنچایا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکی اور انتقال کر گئی۔
راولپنڈی پولیس کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر زیرگردش ہے جس میں کمسن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے ذمہ دار مرد کو ہتھکڑیاں لگے دو پولیس اہلکاروں کے درمیان کھڑے دکھایا گیا ہے۔ پولیس کے ہاتھوں ملزم میاں، بیوی دونوں کی گرفتاری کی اطلاع سامنے آئی البتہ خاتون ملازمہ کی شناخت اور تصویر پبلک نہیں کی گئی تو متعدد صارفین نے مطالبہ کیا کہ اسے بھی سامنے لایا جائے تاکہ اس کا ذکر ہو تو خاتون کو اپنے کیے پر شرمندگی کا احساس دلایا جا سکے۔
پولیس کے سینیئر افسر تاجک سہیل حبیب نے واقعے کی تفصیل سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کو مینشن کیا تو ساتھ ہی تجویز دی کہ گھروں پر کمسن بچوں بچیوں کو ملازم رکھنے کو قانونی طور پر ممنوع قرار دیا جائے۔
 

کچھ صارفین زہرہ شاہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے ذمہ دار میاں بیوی کے ساتھ ساتھ کمسن بچی کو ملازمہ کے طور پر پرائے گھر میں بھیجنے والے والدین کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے۔
 

کمسن ملازمہ پر تشدد اور جانبر نہ ہو سکنے کا معاملہ سامنے آیا تو ’جسٹس فار زہرہ شاہ‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈز لسٹ میں سرفہرست رہا۔ ہزاروں ہینڈلز نے معاملے پر تبصروں کے لیے ٹویٹس اور ری ٹویٹس کو استعمال کیا تو متعدد ایسے تھے جنہوں نے اپنے تاثرات کے اظہار کے لیے کمنٹس کا سہارا لیا۔
نازش چوہدری معاملے پر افسوس کے اظہار کے ساتھ سامنے آئیں تو انہوں نے تجویز دی کہ ’ہمیں یہ سوال تلاش کرنا ہوگا کہ بچوں کو چھوٹی عمر میں مشقت کرنا کیوں پڑتی ہے‘۔
 

شعبہ صحافت سے وابستہ عنبرین فاطمہ نے کمسن زہرہ شاہ کے ساتھ پیش آئے واقعے کو اپنی گفتگو کا موضوع بناتے ہوئے لکھا کہ ’پرندوں نے پنجرہ چھوڑا اور روح جسم چھوڑ گئی‘۔
 

اسامہ خلجی نے وزارت انسانی حقوق کو مینشن کرتے ہوئے کمسن ملازمہ پر تشدد اور انتقال کی اطلاع پہنچائی تو ساتھ ہی تجویز کیا کہ بچوں سے مشقت کو روکنے سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کے لیے موثر طریقہ ہونا چاہیے۔

اسامہ سمیت بہت سے صارفین پالتو پرندے آزاد ہو جانے پر ملازمہ سے زندگی چھین لینے کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی بچی کی زندگی کی قیمت چند طوطوں سے کم ہونے کا شکوہ کرتے دکھائی دیے۔
 

سید علی تشدد کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے تبصرے کے ساتھ سامنے آئے تو لکھا کہ ’ہر دوسرے دن ٹوئٹر پر انصاف مانگنے کے لیے ٹرینڈ ہوتا ہے، جیسے ہی یہ اوجھل ہوتا ہے ہم متاثر فرد کو بھول جاتے ہیں، پھر دوسرا واقعہ ہوتا ہے تو ایک اور ٹرینڈ بنتا ہے اور پھر اسے بھی بھلا دیا جاتا ہے۔‘
 

امۃ السلام بھی اسی سے ملتے جلتے تبصرے کے ساتھ گفتگو کا حصہ بنیں تو انہوں نے مجموعی بے حسی کا اپنا موضوع بنایا۔
 

امین مہر نے لکھا کہ ’یہ افسوسناک ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے معاشرے کا کمزور طبقہ ڈومیسٹنک تشدد کا شکار ہے۔ ہمارا معاشرہ تباہی کی جانب جا رہا ہے۔ کیا ہم انسان ہیں؟‘
 

گذشتہ کچھ عرصے کے دوران کمسن گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات سامنے آنے پر عوامی حلقوں بالخصوص سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ایسے معاملات کے سدباب کے لیے قرار واقعی کارروائی کا تقاضا کیا جاتا رہا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: