پاکستان میں اب تک 75 سے زائد منتخب ارکانِ پارلیمنٹ سمیت متعدد سیاسی رہنما کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ دو سابق ارکان صوبائی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کے سات ارکان اس وبا سے ہلاک بھی ہوئے ہیں جبکہ کورونا سے صحت یاب ہونے والے رکن قومی اسمبلی منیر اورکزئی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
دوسری جانب ارکان پارلیمان اور سیاست دان سمجھتے ہیں کہ روایتی اور حلقوں کی سیاست میں کورونا سے بچاؤ کے ایس او پیز پر کوشش کے باوجود عمل ناممکن سا کام ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں چیف وہیپ عامر ڈوگر نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ قومی اسمبلی کے گذشتہ اجلاس مین خاصے متحرک رہے لیکن کورونا سے محفوظ رہے۔
مزید پڑھیں
-
ایک دن میں متعدد سیاستدان کورونا کا شکارNode ID: 483746
-
کورونا کی انتہا اگست میں آئے گی:وزیراعظمNode ID: 483826
-
پاکستان میں ایک دن میں کورونا سے 105 ہلاکتیںNode ID: 483971
'اجلاس کے بعد حلقے میں اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ احتیاط کے باوجود سماجی فاصلے کے اصولوں پر سو فیصد عملدرآمد کہاں ممکن ہوتا ہے۔ عوامی لوگ ہیں اس لیے نہ جانے کہاں سے کورونا لگ گیا۔'
پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت بھی کورونا کا شکار ہوگئی ہے۔ شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب اور دیگر کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی تسلیم کرچکے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت کے موقعے پر بداحتیاطی ہوئی۔
مریم اورنگزیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ لاہور سے واپسی پر وہ قومی اسمبلی کا اجلاس تو درکنار پارلیمنٹ ہاؤس ہی نہیں گئیں۔
سابق وزیر صحت اور اپنے حلقے میں عوامی اور متحرک سیاستدان سائرہ افضل تارڑ بھی کورونا سے متاثرہ افراد میں شامل ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'گھر میں بوڑھے ساس سسر اور میکے میں بوڑھے والدین ہونے کی وجہ سے کافی عرصے سے سیاسی سرگرمیاں معطل کر دی تھیں۔ خاندان کے ایک فرد میں کورونا کے باعث میں اور عطا تارڑ دونوں متاثر ہوئے۔ ابتدا میں ہلکا بخار تھا لیکن اب طبیعت بہت بہتر ہے۔'

اردو نیوز نے جتنے بھی سیاسی رہنماؤں سے رابطے کیے ان میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مرچ اور چاکلیٹ کا ذائقہ یکساں محسوس ہو رہا ہے۔ منہ کا ذائقہ اتنا کڑوا ہے کہ کنویں میں تھوک پھینک دوں تو وہ ایک مہینہ تک کڑوا رہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ بد احتیاطی کہاں ہوئی ان کا کہنا تھا کہ 'یہ پوچھیں کہ کہاں نہیں ہوئی؟ ہمیں جنازے نکاح اور ہر غمی خوشی میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ لوگ ملنے کے لیے آتے ہیں اور انہیں ملنا پڑتا ہے۔ ہاتھ نہ ملانا تو ویسے ہی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے، ہمارے لوگ تو ماسک پہننے کو نظر انداز کرنے اور نظریں نہ ملانے جیسا فعل سمجھتے ہیں۔ ایسے میں کورونا سے ملاقات تو ہونی ہی تھی۔'
پاکستان کی قومی اسمبلی کے تین سو 42 ارکان میں سے 21 کورونا کا شکار ہوئے جن میں سے 10 کا تعلق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے ہے جبکہ چار مسلم لیگ ن سے ہیں۔ ان ارکان میں سے سپیکر قومی اسمبلی سمیت کچھ دیگر صحت یاب ہو چکے ہیں۔

جو ارکان کورونا کا شکار ہوئے ان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر شیخ رشید، شہریار آفریدی کے علاوہ پی ٹی آئی کے ملک عامر ڈوگر، پیر ظہور حسین قریشی، ملک کرامت علی کھوکھر، گل ظفر خان، محبوب شاہ، راحت امان اللہ بھٹی، عثمان خان ترکئی، وجیہہ اکرم، جے پرکاش، نزہت پٹھان، رائے مرتضیٰ اقبال شامل ہیں۔
مسلم لیگ کے دیگر ارکان میں مریم اورنگزیب، ان کی والدہ طاہرہ اورنگزیب اور سید جاوید حسین شامل ہیں۔
ایم کیو ایم کے اسامہ قادری، جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی اور آزاد رکن علی وزیر بھی کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں میں شامل ہیں۔
ایوان بالا یعنی سینیٹ کے پانچ ارکان وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں جن میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عطا الرحمان، پی ٹی آئی کے فدا محمد، فاٹا کے آزاد رکن مرزا محمد آفریدی اور پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی سینیٹر عابدہ عظیم شامل ہیں۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری سمیت 11 ارکان میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ دیگر ارکان دو صوبائی وزراء، وزیر انرجی ڈویلپمنٹ اختر ملک، وزیر خواندگی راجہ راشد حفیظ کے علاوہ چودھری علی اختر، مسلم لیگ ن کے خواجہ سلمان رفیق رانا عارف اقبال، مظفر علی شیخ، میاں نوید علی اور سیف الملوک کھوکھر شامل ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی رکن شاہین رضا چیمہ اور مسلم لیگ ن کے شوکت منظور چیمہ کورونا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
صوبائی اسمبلیوں میں سے سندھ اسمبلی کے سب سے زیادہ 19 ارکان کرونا وائرس کا نشانہ بنے ہیں۔ جن میں صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی، شرجیل انعام میمن، لیاقت علی اسکانی، ساجد جوکھیو، نور محمد بھرگڑی، تاج محمد ملاح، محمد سلیم بلوچ، سہراب خان سرکی، رانا ہمیر سنگھ، سعدیہ جاوید، ایم کیو ایم کے علی خورشیدی، شاہانہ اشعر، منگلا شرما، غلام جیلانی، جی ڈی اے کے معظم علی عباسی، راشد شاہ، پی ٹی آئی کے شاہ نواز جدون اور جماعت اسلامی کے عبدالرشید شامل ہیں۔
شرجیل میمن نے دو مختلف لیبارٹریوں سے دو ٹیسٹ کروائے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ٹیسٹ مثبت اور دوسرا منفی آیا ہے لیکن وہ قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔
