Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں بھی نسل پرستی اور ذات پات پر بحث

انڈیا میں سوشل میڈیا پر 'مسلم لائیوز میٹر'، 'دلت لائیوز میٹر' اور 'ویمن لائیوز میٹر' جیسے ہیش ٹیگ نظر آرہے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
امریکہ میں ایک سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی موت نے انڈیا میں بھی نسل پرستی، ذات پات، مذہبی تعصب اور صنفی تعصب پر بحث کو ہوا دی ہے۔
انڈیا میں مشاہیر نے 'بلیک لائیوز میٹر' کے عنوان سے جب ٹویٹ کیا تو لوگوں نے سوال پوچھا کہ جب انڈیا میں کوئی مسلمان یا کوئی دلت (یعنی پسماندہ ذات کا ہندو) مارا جاتا ہے تو یہ لوگ کیوں کچھ نہیں بولتے اور ٹویٹ کرتے ہیں۔
اس کے بعد سے انڈیا میں اسی طرز کے کئی ہیش ٹیگ گردش کرتے رہے جس میں 'مسلم لائیوز میٹر'، 'دلت لائیوز میٹر' اور 'ویمن لائیوز میٹر' نمایاں رہے۔
گذشتہ دنوں اترپردیش میں ایک دلت نوجوان کی مبینہ اعلی ذات کے دوسرے ہندو نوجوانوں کے ہاتھوں صرف اس بات پر قتل پر شور برپا ہے کہ اس نے گاؤں کے مندر میں پوجا کی تھی۔
دلت نوجوان کے والد نے بتایا کہ ان کا لڑکا اور ان کا بھتیجا 31 مئی کو گاؤں کے مندر گئے تھے جہاں ہورام چوہانی نامی شخص اور اس کے ساتھیوں نے انھیں پوجا کرنے سے روک دیا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے ان سے بحث کی اور یکم جون کو پولیس کے پاس شکایت بھی درج کی۔
انھوں نے پولیس پر شکایت کے باوجود کارروائی نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 'سنیچر کی رات جب ان کا بیٹا سو رہا تھا تو چوہان اور اس کے آدمی آئے اور انھوں نے ہمارے بیٹے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔'

 

پولیس کاکہنا ہے کہ چوہان اور ان کے دو ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے باقی ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے تلاش جاری ہے۔
پولیس اس معاملے کو مندر سے نہیں جوڑ رہی ہے بلکہ آپسی رنجش کا معاملہ قرار دے رہی ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر گرما گرم مباحثہ جاری ہے۔
دوسری جانب وائر نے خبر دی ہے کہ مغربی ریاست مہاراشٹر میں دو مختلف واقعات میں دو دلت نوجوانوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ 32 سالہ ذات پات مخالف کارکن اور ونچت بہوجن اگھادی کے رکن مئی 27  کو پراسرار انداز میں مردہ پایا گیا اور ان کی موت اعلی ذات کے اراکین سے جھگڑے کے فورا بعد ہوئی تھی۔
دوسرے واقعے میں سات جون کو ایک 20 سالہ کالج طالب علم مبینہ طور پر اعلی ذات کی لڑکی سے محبت کے معاملے میں قتل ہو گیا۔
ان دونوں واقعات میں متاثرہ خاندان نے پولیس پر لاپرواہی اور دانستہ طور پر تاخیر کا الزام لگایا ہے۔
دوسری جانب گذشتہ روز دہلی پولیس نے فروری کے مہینے میں دلی میں بھڑکنے والے فرقہ وارانہ فسادات پر چارج شیٹ دائر کی ہے جس پر این ڈی ٹی وی نے اپنے پروگرام میں پولیس پر جانبداری کا الزام لگایا ہے اور کہا کہ 'پولیس نے جو کرونو لوجی پیش کی ہے اس میں سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔'
خیال رہے کہ سی اے اے شہریت کا ترمیمی قانون ہے جسے انڈین پارلیمان نے دسمبرکے اوائل میں منظور کیا تھا اور اس کے بعد سے اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاج اور مظاہروں کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی تھی کیونکہ مخالفین کا کہنا تھا کہ یہ انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف ہے جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔
انڈیا میں رونما ہونے والے ان واقعات میں پولیس کی جانبداری پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ انڈیا میں ذات پات ایک حقیقت ہے اور اس کا وقتا فوقتا اظہار ہوتا رہتا ہے۔
معروف کرکٹر عرفان پٹھان نے ٹویٹ کیا: ’نسل پرستی صرف جلد کے رنگ تک ہی محدود نہیں ہے۔ کسی سوسائٹی میں محض دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر گھر خریدنے کی اجازت نہ ہونا بھی نسل پرستی ہے۔'
اور اس کے ساتھ انھوں نے 'کنوینینٹ' اور 'ریسزم' کے ہیش ٹیگ کا استعمال کیا ہے۔ ان کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے معروف صحافی اور فلم ناقد ضیاء السلام نے لکھا: ’بہتر کہا۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے میرے مذہب کی وجہ سے کم از کم نوئیڈا (دہلی سے ملحق علاقہ) کے دو سیکٹرز میں گھر خریدنے نہین دیا گیا۔ اور ان میں سے ایک جس نے مجھے گھر نہیں دیا وہ کرگل پروپرٹیز کے نام سے تجارت کرتا تھا۔'
امریکہ میں مقیم صحافی اور مصنف میرا کامدار نے دلت نوجوان کی ہلاکت کی خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: 'انڈیا کے ذات پات کے نظام میں امریکی نسل پرستی سے زیادہ گہری نا انصافی پیوست ہے۔'
انڈیا میں مباحثہ جاری ہے اور اس کے ساتھ پس ماندہ ذاتوں اور اقلیت کے خلاف روزانہ متعدد واقعات رونما ہو رہے ہیں لیکن حکومت اس پر خاموش ہے۔ بہت سے صارفین نے تو یہاں تک کہا کہ انڈیا میں فروری کے مہینے میں پولیس کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ جیسے واقعات دہلی میں دیکھے گئے لیکن انڈیا میں پولیس والے بغیر کسی سزا کے اپنا کام کر رہے ہیں۔ جب کہ فلوئيڈ کے مارنے والے اور ان کے ساتھیوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔

شیئر: