سپیکر اسمبلی کے مطابق کمیٹی برائے ایڈز کنٹرول کو متحرک کیا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں ایڈز کے مریضوں کی اصل تعداد ایک لاکھ 83 ہزار ہے جبکہ رجسٹرڈ مریض صرف 25 ہزار ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی مریم اورنگزیب اور دیگر اراکین نے ایڈز کے مریضوں سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس ایوان میں پیش کیا تو حکومت کی جانب سے پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت نوشین حامد نے جواب دیا۔
پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے ایڈز کے خاتمے یا علاج کی مد میں کبھی پیسہ نہیں رکھا۔ اس حوالے سے بیرونی ممالک اور عالمی تنظیموں کی جانب سے آنے والے فنڈز پر ہی انحصار کیا جاتا رہا ہے۔
پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ معاشرتی مسائل اور مقامی رسم و رواج کے باعث لوگ اس بیماری کی نشاندہی کرنا پسند نہیں کرتے۔ اسی لیے ایڈز کے ٹیسٹ بھی کم ہی ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایڈز کے کل ایک لاکھ 83 ہزار مریض ہیں مگر رجسٹرڈ صرف 25 ہزار ہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ بیرونی ممالک سے جو فنڈز ایڈز کے حوالے سے آتے ہیں، موجودہ حکومت ان کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنا سکی۔
انہوں نے کہا کہ کورونا میں جب ٹیسٹ کم ہیں تو مریض بھی کم نظر آتے ہیں۔ ایڈز کے بھی ٹیسٹ کم ہوں گے تو مریض کم ہوں گے۔ اس حوالے سے پائیدار ترقی کے اہداف کی ایڈز سے متعلق کمیٹی کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کو بتایا کہ ایس جی ڈیز کمیٹی برائے ایڈز کنٹرول کو متحرک کررہے ہیں۔
پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ پمز میں ایک بھی پیدائش ایسی نہیں ہوئی جس میں بچے کو ایڈزمنتقل ہوا ہو۔ ایڈز کے ٹیسٹ بڑھائے جارہے ہیں۔ 2030 تک کے لیے ایڈز کنٹرول پالیسی تیار کرلی گئی ہے۔
اس کے علاؤہ جمعے کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں زرعی مسائل پر بھی بات کی گئی۔
اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا تنویر حسین نے زرعی ٹیوب ویلوں کو سبسڈی کے باوجود زائد بلوں کے معاملے پر توجہ دلاو نوٹس پر ہونے والی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’سپیکر صاحب! آپ کی سربراہی میں زراعت کے لیے بڑی کوشش کی مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں۔ زراعت کا مسئلہ کمیٹیوں میں نہ بھجیں بلکہ آپ جاتے جاتے خود کچھ کر جائیں۔‘
پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے کہا کہ زراعت کا مسئلہ صرف وزیراعظم ہی حل کرسکتے ہیں۔ ’سپیکر صاحب آپ ہی وزیر اعظم کو قائل کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم کو قائل کریں اور متحرک کردار کی درخواست کریں۔‘
اس موقع پر حکومتی رکن نواب زیر وسیر نے کہا کہ ’ 40 برس سے یہ سن کر کان پک گئے ہیں کہ کسان معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اب کسان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔‘
انھوں نے واپڈا کی طرف سے کسانوں کے بجلی کے میٹر اتارنے پر بھی بات کی، جس پر وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ بجلی کمنپوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ وہ کسانوں کا میٹر فوری طور پر نہیں اتاریں گے۔
سپیکر اسمبلی نے ہدایت کی کہ تمام بجلی کمپنیوں کے ساتھ کسان تنظیموں کی ملاقات کروائیں۔