کورونا وائرس کے ہوا کے ذریعے منتقلی کے حوالے سے طبی ماہرین کے درمیان اختلاف سامنے آیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 200 کے قریب ایرو سول سائنس کے ماہرین نے کہا تھا کہ کورونا وائرس ہوا میں تیرنے والے پانی کے چھوٹے قطروں کے ذریعے منتقل ہو سکتا ہے جس کے بعد عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی رواں ہفتے کے دوران اس بات کی تائید کی تھی۔
ماہرین نے عوامی سطح پر اقوام متحدہ کے ادارے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس خطرے کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کورونا دنیا میں کتنے لوگوں کو مار سکتا ہے؟Node ID: 490301
-
’کورونا ہوا کے ذریعے پھیلتا ہے‘Node ID: 490636
-
’کورونا کیسز کی تعداد دگنی لیکن پھیلاؤ کو روکنا اب بھی ممکن‘Node ID: 491471
ماہرین کے مطابق سائنسی شواہد کے مطابق جراثیم کے فضا میں موجود ہونے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا خطرہ رش والی بند جگہوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں ہوا کا گزر کم سے کم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بند جگہوں جیسے ریستوران، چرچ اور گوشت کے پلانٹس میں وائرس کے پھیلاؤ کے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔
وائرس کے فضا میں موجود ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کے جراثیم ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتے ہیں۔ دیگر پیتھوجن جیسے خسرے کے جراثیم بھی فضا میں دو گھنٹے تک زندہ رہتے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں ایچ آئی وی کا وائرس انسانی جسم کے باہر مؤثر نہیں رہتا۔
کورونا وائرس کے حوالے سے ماہرین متفق ہیں کہ اس کے جراثیم زیادہ دور تک فضا میں سفر نہیں کر سکتے اور نہ ہی کھلی فضا میں زیادہ مؤثر رہتے ہیں۔
شواہد کے مطابق کورونا کے جراثیم ایک کمرے کی لمبائی کے برابر سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایک تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر تین گھنٹوں تک فضا میں مؤثر رہتے ہیں۔
دوسری طرف ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید ٹھوس ثبوتوں کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس ہوا کے ذریعے منتقل ہو سکتا پے یا نہیں، اور ادارے کے لیے یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ دنیا کو اس بارے میں خبردار کر سکے کہ وہ اس حوالے سے انتظامات کر سکیں۔

مثال کے طور پر ہسپتالوں کو این 95 ماسک کے ساتھ مزید طبی سامان کی ضرورت ہوگی جبکہ عملے کے لیے حفاظتی سامان کی پہلے ہی کمی ہے، اور اس کے علاؤہ سکولوں اور کاروبار کی جگہوں کے لیے ہوا کے گزر کا انتظام کرنا اور اندر بھی ہر وقت ماسک پہنے رہنا ضروری ہوگا۔
ڈبلیو ایچ او کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر جان کونلی کا کہنا ہے کہ ’یہ ہماری طرز زندگی کو مکمل پر متاثر کرے گا۔ اس لیے یہ سوال بہت ضروری ہے کہ کورونا وائرس کے جراثیم ہوا میں موجود رہتے ہیں یا نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ابھی تک کی جانے والی تحقیق میں یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ وائرس کے ذرات ہوا میں تیرتے رہتے ہیں۔ ’مجھے اس حوالے سے ثبوت درکار ہے۔‘
عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جمعرات کو جاری کی جانے والی دستاویزات کے مطابق کورونا وائرس کے ہوا کے ذریعے منتقلی کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
دستاویز میں اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ کھانسنے یا چھینکنے سے خارج ہونے والے بڑے قطرے ایک میٹر سے زیادہ دور نہیں جاسکتے۔
ڈاکٹر کولنی کا کہنا ہے کہ ’اگر وائرس خسرے کی طرح ہوا میں موجود ہوتا تو کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔‘
