Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا وائرس کے ہوا کے ذریعے پھیلنے پر طبی ماہرین میں اختلاف

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے (فوٹو: روئٹرز)
کورونا وائرس کے ہوا کے ذریعے منتقلی کے حوالے سے طبی ماہرین کے درمیان اختلاف سامنے آیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 200 کے قریب ایرو سول سائنس کے ماہرین نے کہا تھا کہ کورونا وائرس ہوا میں تیرنے والے پانی کے چھوٹے قطروں کے ذریعے منتقل ہو سکتا ہے جس کے بعد عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی رواں ہفتے کے دوران اس بات کی تائید کی تھی۔
ماہرین نے عوامی سطح پر اقوام متحدہ کے ادارے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس خطرے کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔

 

ماہرین کے مطابق سائنسی شواہد کے مطابق جراثیم کے فضا میں موجود ہونے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا خطرہ رش والی بند جگہوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں ہوا کا گزر کم سے کم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بند جگہوں جیسے ریستوران، چرچ اور گوشت کے پلانٹس میں وائرس کے پھیلاؤ کے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔
وائرس کے فضا میں موجود ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کے جراثیم ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتے ہیں۔ دیگر پیتھوجن جیسے خسرے کے جراثیم بھی فضا میں دو گھنٹے تک زندہ رہتے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں ایچ آئی وی کا وائرس انسانی جسم کے باہر مؤثر نہیں رہتا۔
کورونا وائرس کے حوالے سے ماہرین متفق ہیں کہ اس کے جراثیم زیادہ دور تک فضا میں سفر نہیں کر سکتے اور نہ ہی کھلی فضا میں زیادہ مؤثر رہتے ہیں۔
شواہد کے مطابق کورونا کے جراثیم ایک کمرے کی لمبائی کے برابر سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایک تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر تین گھنٹوں تک فضا میں مؤثر رہتے ہیں۔
دوسری طرف ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید ٹھوس ثبوتوں کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس ہوا کے ذریعے منتقل ہو سکتا پے یا نہیں، اور ادارے کے لیے یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ دنیا کو اس بارے میں خبردار کر سکے کہ وہ اس حوالے سے انتظامات کر سکیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق وائرس کے ہوا کے ذریعے منتقلی کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے (فوٹو: اے ایف پی)

مثال کے طور پر ہسپتالوں کو این 95 ماسک کے ساتھ مزید طبی سامان کی ضرورت ہوگی جبکہ عملے کے لیے حفاظتی سامان کی پہلے ہی کمی ہے، اور اس کے علاؤہ سکولوں اور کاروبار کی جگہوں کے لیے ہوا کے گزر کا انتظام کرنا اور اندر بھی ہر وقت ماسک پہنے رہنا ضروری ہوگا۔
ڈبلیو ایچ او کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر جان کونلی کا کہنا ہے کہ ’یہ ہماری طرز زندگی کو مکمل پر متاثر کرے گا۔ اس لیے یہ سوال بہت ضروری ہے کہ کورونا وائرس کے جراثیم ہوا میں موجود رہتے ہیں یا نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ابھی تک کی جانے والی تحقیق میں یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ وائرس کے ذرات ہوا میں تیرتے رہتے ہیں۔ ’مجھے اس حوالے سے ثبوت درکار ہے۔‘
عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جمعرات کو جاری کی جانے والی دستاویزات کے مطابق کورونا وائرس کے ہوا کے ذریعے منتقلی کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
دستاویز میں اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ کھانسنے یا چھینکنے سے خارج ہونے والے بڑے قطرے ایک میٹر سے زیادہ دور نہیں جاسکتے۔
ڈاکٹر کولنی کا کہنا ہے کہ ’اگر وائرس خسرے کی طرح ہوا میں موجود ہوتا تو کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔‘

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے اموات پانچ لاکھ 60 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہیں (فوٹو: روئٹرز)

ڈبلیو ایچ او کی ترجمان ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس نے ناقدین کے اس دعوے کو رد کیا ہے کہ ادارہ کورونا وائرس کے ہوا کے ذریعے منتقلی کے بارے میں تعصب کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ادارے نے شروع ہی میں وائرس کی میڈیکل پروسیجر کے دوران ہوا میں منتقلی کو تسلیم کیا تھا۔
ڈاکٹر مارگریٹ نے کہا کہ ’یہ ممکن ہے بند جگہ میں یہ وائرس ایک شخص سے دوسروں میں منتقل ہو اور اس کی وجہ سے کیسز میں اضافہ ہوا ہو۔ اور جگہیں نائٹ کلب ہو سکتے ہیں جہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور احتیاط سے کام نہیں لیتے۔‘
واضح رہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ 25 لاکھ سے بڑھ چکی ہے اور اموات پانچ لاکھ 60 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں