کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد بیجنگ میں بڑے پیمانے پر ٹیسٹ ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کی وبا کو دنیا میں پھیلے چھ مہینے ہو گئے ہیں، اس دوران دنیا بھر میں اس وبا سے ایک کروڑ 13 لاکھ سے زائد افراد متاثر جبکہ پانچ لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ہلاک ہوئے ہیں۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود سائنسدانوں کے پاس اب بھی اس بنیادی سوال کا حتمی جواب موجود نہیں کہ آخر ’یہ وائرس کتنا مہلک ہے؟‘
ایک ٹھوس اندازہ حکومتوں کو اس بات کی پیشنگوئی کرنے میں مدد کر سکتا ہے کہ اگر وائرس قابو سے باہر ہوتا ہے تو کتنی اموات واقع ہوں گی؟
کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار محکمہ صحت کے حکام کو بتا سکتے ہیں کہ برازیل، نائجیریا اور انڈیا جیسے گنجان آبادی والے ممالک میں پھیل رہی اس وبا سے کیا توقع رکھنی چاہیے۔
حتیٰ کہ غریب ممالک جہاں خسرہ اور ملیریا مستقل موجود ہیں، جہاں بجٹ سے متعلق مشکل فیصلے معمول ہیں، وہاں اعداد و شمار حکام کو اس بات کا فیصلہ کرنے میں مدد کر سکتے ہیں کہ آیا وینٹیلیٹرز پر زیادہ پیسہ خرچ کرنا چاہیے یا خسرے اور مچھروں کے انسداد پر۔
گذشتہ ماہ یہ سوال اس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا جب امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول نے ڈیٹا شائع کیا کہ امریکہ میں ہر رپورٹ ہونے والے کورونا انفیکشن کے ساتھ ساتھ 10 ایسے کیسز بھی ہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ کچھ لوگوں میں کورونا کی علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں یا ان میں شدت نہ آئی ہو۔
اگر کورونا وائرس کے بغیر علامات والے مریض اندازوں سے زیادہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس کم مہلک ہے لیکن اس کے باوجود اس کا حساب لگانا ایک مشکل کام ہے۔
جمعرات کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دنیا بھر کے 13 سو سائنسدانوں کے ساتھ آن لائن میٹنگ کے بعد، ادارے کے چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیا سوامی نیتھن نے کہا کہ اب تک کے لیے اتفاق رائے یہ ہے کہ آئی ایف آر (شرح اموات) صفر اعشاریہ چھ فیصد ہے، جس کا مطلب ہے کہ مرنے کا خطرہ ایک فیصد سے کم ہے۔
اگرچہ انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ دنیا کی صفر اعشاریہ چھ فیصد آبادی چار کروڑ 70 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور جبکہ امریکہ کی صفر اعشاریہ چھ فیصد آبادی 20 لاکھ افراد بنتے ہیں۔ لہذا کورونا وائرس اب بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے جمع کردہ اعدادو شمار کے مطابق جمعے تک چین میں 90 ہزار دو سو 94 افراد متاثر اور چار ہزار چھ سو 34 ہلاکتیں ہوئی ہیں یوں چین میں اموات کی شرح پانچ فیصد ہے۔
امریکہ میں اموات کی شرح بھی چین کے آس پاس ہی ہے جہاں اب تک 28 لاکھ 11 ہزار 447 کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ ایک لاکھ 29 ہزار اموات ہوئی ہیں۔ یوں امریکہ میں شرح اموات 4.6 فیصد بنتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی پروگرامز کے کلینکل کیئر کے سربراہ ڈاکٹر جینٹ ڈیاز کے مطابق اب تک زیادہ تر ممالک میں کورونا وائرس کے 20 فیصد مریضوں کو اضافی آکسیجن کی ضرورت پڑی۔
صحت یاب ہرنے والے مریضوں کے بچ جانے پیچھے کئی عوامل کار فرما تھے جیسے کہ عمر اور میڈیکل کیئر وغیرہ۔
شرح اموات ان ممالک میں کم ہونے کی توقع ہے جن میں نوجوان آبادی کا تناسب زیادہ اور موٹاپا کم ہے۔ یہ اکثر غریب ترین ممالک ہیں۔
اس کے برعکس کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد ان ممالک میں زیادہ ہونی چاہیے جہاں آکسیجن ٹینکس، وینٹیلیٹرز اور ڈائیلاسز مشینوں کی کمی ہے، اور جہاں لوگ ہسپتالوں سے بہت دور رہتے ہوں۔ ایسا بھی عموماً غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔