دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے بھی بیان حلفی جمع کرا دیا (فوٹو:ٹوئٹر)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کو قتل کی دھمکیاں دینے والے آغا افتخار الدین مرزا کی معافی مسترد کرتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔
عدالت نے آغا افتخار الدین کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اور قاضی فائز عیسی کے خلاف شکایت کنندہ وحید ڈوگر سے تعلق کے حوالے سے تحقیقات نہ کرنے پر ایف آئی اے اور سی ٹی ڈی کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ججز اور عدلیہ کے خلاف آغا افتخار الدین مرزا توہین آمیز ویڈیو از خود نوٹس کی سماعت کی۔
آغا افتخار الدین مرزا نے عدالت سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ بحیثیت مسلمان معافی چاہتا ہوں کیونکہ اللہ کی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 'اگر آپ کو معاف کر دیا تو پورے ملک کا سسٹم فیل ہوجائے گا۔ آپ عدالت اور اس کے ججز کے ساتھ مذاق نہیں کر سکتے۔ آپ کے تو دنیا بھر میں رابطے ہیں پھر کہتے ہیں کہ غلطی سرزد ہوگئی۔'
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ 'بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ پہلے آپ بیان دیتے ہیں پھر اس کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے پیسے بھی کماتے ہیں۔ آپ مسجد کے ممبر پر وہ زبان استعمال کر رہے تھے جو کوئی پڑھا لکھا آدمی بھی نہیں کر سکتا۔'
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ انسان کو سمجھ بھی غلطی کرنے کے بعد آتی ہے۔'
اٹارنی جنرل نے تحریری فرد جرم آغا افتخار الدین مرزا کی وکیل کو دی اور عدالت نے انھیں اس پر جواب جمع کرانے کی ہدایت دی۔ عدالت نے کہا کہ آغا افتخار الدین مرزا کے جواب سے مطمئن نہیں ہیں۔ ایک ہفتے کے اندر فرد جرم پر جواب داخل کرایا جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'اس معاملے پر توہین عدالت کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے توہین عدالت کے مرتکب کو نوٹس جاری ہوچکے ہیں اس کا جواب بھی جمع کرایا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ توہین عدالت کے مرتکب کے جواب سے مطمئن نہیں۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے بھی بیان حلفی جمع کرا دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیان حلفی میں وحید ڈوگر، شہزاد اکبر سے متعلق بات کی گئی ہے، سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نے بیگم فائز عیسی کا بیان حلفی پڑھا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی نہیں پڑھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بیان حلفی کو پڑھیں اور اس میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان کا جواب دیں۔
عدالت نے ایف آئی اے اور سی ٹی ڈی کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ محکمے کیا کر رہے ہیں؟ اسے سنجیدہ نہیں لے رہے۔
انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'تحقیقاتی رپورٹ میں کوئی ٹھوس چیز موجود نہیں۔ کس بنیاد پر افتخار الدین کا کنکشن شہزاد اکبر اور وحید ڈوگر سے جوڑا گیا؟ کیا ایف آئی اے نے افتخار مرزا کے کنکشنز کا کھوج لگایا؟ عدلیہ کے خؒاف ایسا بیان کوئی اپنے طور پر نہیں دے سکتا۔'
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔