بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے ہمیں ایف اے ٹی ایف کی ڈیڈ لائن پر پورا اترنے میں مدد ملے گی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سینیٹ نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلقہ دو اہم بل منظور کیے ہیں۔
وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ سینیٹ سے دو اہم بلز کی منظوری لی گئی ہے۔ 'ایک اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل ایکٹ 1948 ترمیمی بل اور دوسرا انسداد دہشت گردی سے متعلقہ یو آر ایس کا بل منظور ہوا۔'
انہوں نے کہا کہ اس قانون سازی کے ذریعے ہمیں ایف اے ٹی ایف کی ڈیڈ لائن پر پورا اترنے میں مدد ملے گی۔
اردو نیوز کے نامہ نگار بشیر چوہدری کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے کہا ہے کہ حکومت نے بغیر ترامیم کے دونوں بل اسمبلی سے جلد بازی میں منظور کرائے ۔
اپوزیشن جماعتوں کے مطابق اگر ساتھ نہ دیتے تو بل سینیٹ سے پاس نہیں ہوسکتے تھے۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجہ ظفرالحق کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں سب کو اعتماد میں لے کر بلز پاس کیے گئے ہیں، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ میں تمام جماعتوں کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے سفارتی کوششیں کی گئیں، اور چار ایسے بل ہیں جن پر ہم نے قانون سازی کرنی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ہماری کوشش ہے کہ پاکستان کے مفاد کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مل کر قانون سازی کریں، اور اس حوالے سے 25 رکنی پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی تشکیل پائی ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کے ممبران شامل ہیں۔‘
نئے قوانین کیا ہیں؟
قوانین فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے دی گئی ہدایات کی روشنی میں تیار کیے گئے ہیں۔
نئے قوانین کے تحت مشتبہ دہشت گردوں کی فہرست شیڈول 4 میں شامل افراد کے اسلحہ لائسنس منسوخ ہوں گے اور ایسے افراد کو کوئی شخص یا ادارہ قرض نہیں دے گا، جس شخص نے مشتبہ دہشت گرد کو قرض دیا اس پر ڈھائی کروڑ جب کہ ادارے کو 5 کروڑ روپے جرمانہ ہوگا۔
انسداد دہشت گری ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کی سیکشن 11 جے کے مطابق کسی شخص یا گروپ کو دہشت گردی مقاصد کے لیے بیرون ملک بھیجنے میں مدد یا مالی معاونت دینے والوں کو بھی اسی طرح جرمانے ہوں گے۔
سیکشن 11 او او کے مطابق کسی بھی کالعدم تنظیم یا اس کے نمائندے کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد فوری منجمد کی جائے گی، سیکشن 11 کیو کے مطابق جائیداد کی تصدیق نہ ہونے پر عدالتی دائرہ کار سے باہر کی جائیداد بھی قرق کی جاسکے گی۔
منجمد کیے گئے اثاثہ جات کاگزٹ نوٹیفکیشن بھی نکالا جائے گا اور ایسے افراد کو اپنے بنیادی اخراجات چلانے کے لیے اپنی جائیداد کا ایک حصہ استعمال کرنے کی اجازت ہوگی جس کی منظوری ضلعی انٹیلی جنس کمیٹی کی سفارش پر وفاقی حکومت دیا کرے گی۔
قومی اسمبلی سے منظور کی گئی ان ترامیم کی سینیٹ سے منظوری کے بعد اس قانون کا اطلاق انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت سزا پانے والے تمام مجرموں اور فورتھ شیڈول میں شامل مشتبہ دہشت گردوں پر ہوگا۔
تفتیشی افسر دہشت گردی کی مالی معاونت کی تحقیقات کے دوران عدالت کی اجازت سےکسی شخص کے ذرائع مواصلات اور کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرسکے گا اور وہ انڈرکور اور کنڑول ڈیلیوری آپریشنز بھی کرسکے گا۔
انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء اگرچہ کہ اپنی وسعت میں جامع ہے مگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں 1267 اور 1373 کے اطلاق کی نسبت بعض احکامات کی کمی ہے۔
یو این ایس سی آر کو اقوام متحدہ کے منشور کے باب ہفتم کے آرٹیکل41 کے تحت اختیار کیا گیا جو اقوام متحدہ کے تمام ارکان کے لیے اسے لازم بناتا ہے۔ یو این ایس سی آر1267 کے ذریعے اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں اثاثہ جات کے منجمد کرنے، (اہدافی مالیاتی پابندیاں) اسلحے کی بندش اور اداروں اور افراد پر سفری پابندی (جو پابندیوں کی فہرست میں نامزد کردہ ہوں) کی پابندیوں کے اقدامات کی تعمیل کریں گی۔
یو این ایس سی آر 1373 رکن ریاستوں سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسداد دہشتگردی کے اقدامات کا اطلاق کریں۔ بالخصوص اپنے ملکی قوانین کے تابع دہشتگردی کی مالیات کاری کا انسداد کریں۔ مندرجہ بالا وجوب کو پاکستان میں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ءکے ذریعے لاگو کیا گیا ہے۔
مذکورہ ایکٹ میں پہلے سے فراہم کردہ سزائیں دفعہ اثاثہ جات کی ضبطی کےحکم کی خلاف ورزی کے لیے مزاحمتی نہیں ہیں اور جرمانے کی فراہم کردہ رقم بھی ناکافی ہیں۔