پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اس قدر تاریخی اور گہرے ہیں کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پاکستانی بسلسلہ روزگار سعودی عرب میں مقیم ہیں جن کی تعداد 26 لاکھ سے زائد ہے۔
ان میں ہزاروں ایسے ہیں جو اپنے خاندان اور بیوی بچوں سمیت وہاں مقیم بلکہ ان کے بچوں کی پیدائش بھی سعودی عرب میں ہی ہوئی ہے۔
ان پاکستانیوں کے بچے عموماً پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور موقع ملنے پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان بھی آتے ہیں اور پاکستان کی مختلف جامعات اور پیشہ وارانہ تعلیم کے اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
بیرون ملک جانے والے ورکرز کی تعداد کمNode ID: 492846
-
پاکستانیوں کو درپیش مسائل، زلفی بخاری کا امارات کا دورہNode ID: 493976
-
’بیرون ملک سے آنے والوں کو قرضے فراہم کیے جائیں گے‘Node ID: 495441
یہ طالب علم سعودی عرب میں مقیم والدین سے ملنے کے لیے عموما سمیسٹر کی تکمیل یا پھر چھٹیوں کے دوران سعودی عرب جاتے ہیں۔
راواں برس کورونا کی عالمی وبا کے سبب سفری پابندیوں کے باعث یہ طالب علم تعلیمی ادارے بند ہونے کے باوجود اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے پاس نہیں جا سکے اور مسلسل دوسری عید بھی انھیں جامعات یا نجی ہاسٹلز یا پھر کسی رشتہ دار کے ہاں گزارنا پڑ رہی ہے۔
اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی سعودیہ میں مقیم پاکستانیوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور موجودہ صورت حال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں پاکستان میں پھنسے طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ عید کے موقع پر اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے دور رہ کر اداس ہیں۔ واپس سعودی عرب جانا چاہتے ہیں لیکن سعودی عرب میں پروازوں کو مسافر لے کر جانے کی اجازت نہیں اس لیے واپسی بھی ممکن نظر نہیں آ رہی۔
حنا مسعود بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم ایس مینجمنٹ سائنسز کی طالبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'پروازیں بند ہونے کی وجہ سے واپسی ممکن نہیں ہوئی۔ پانچ ماہ سے ایک طرح سے قرنطینہ میں رہ رہے ہیں۔ میں دو سال سے مقیم ہوں اور ہر چھ ماہ بعد واپس سعودی عرب جاتی ہوں لیکن اس دفعہ ممکن نہیں ہوسکا۔ ہم نے کوشش بھی کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔'

انھوں نے کہا کہ اب تو دوسرے ممالک کی پروازیں کھل جانے کے باعث دیگر ممالک کی طالبات واپس جا چکی ہیں اور صرف سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی طالبات ہی موجود ہیں۔ والدین بھی اپنی کمپنی کے ذریعے ٹکٹ کی بکنگ کی کوشش کر رہے ہیں۔'
ایک اور طالبہ منال احمد کا کہنا ہے کہ 'یہ دوسری عید ہے جو زندگی میں والدین کے بغیر گزارنا پڑ رہی ہے۔ منتظر ہیں کہ پروازیں کھلیں اور واپس جائیں۔ میں نے اپنی پوری فیملی بہن بھائی امی ابو سب کو مس کیا ہے۔ اب جب واپس جائیں گے تو ایک دو مہینے ضرور رہ کر ہی واپس آئیں گے۔
طالبہ مریم نے کہا کہ میرے والد 25 سال سے سعودی عرب میں مقیم ہے اور میری پیدائش بھی وہیں ہوئی ہے۔ ہاسٹل میں سہولیات کے باوجود بور ہو جاتے ہیں۔ آن لائن کلاسز کے علاوہ کوئی سرگرمی ہی نہیں ہوتی۔'
انھوں نے کہا کہ 'عید کے دن فیملی کی یاد بہت زیادہ آتی ہے۔ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے دوست مل کر کچھ نہ کچھ کر ہی لیتے ہیں لیکن گھر والوں کی اتنی یاد آتی ہے کہ کچھ کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ عید کے دن ہم لوگ کلیجی کا ناشتہ کرتے ہیں اور سب بہن بھائل مل کر قربانی کے گوشت کے پیکٹ بنا کر تقسیم کرتے ہیں وہ سب یاد آئے گا۔ اب تو فیملی والوں کو بھی ہماری یاد ستا رہی ہے۔'
