پاکستان کی سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کے تعیناتیوں کے اختیار کا ازخودنوٹس لیا ہے۔
جعلی نیب افسر محمد ندیم کی ضمانت کے مقدمے کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا ہے کہ چیئرمین نیب تعیناتیوں کا اختیار رولز کے تحت ہی استعمال کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’نیب کا غیر جانبدارانہ تصور دھندلا گیا‘Node ID: 493556
-
نیب ترامیم: حکومت، اپوزیشن مذاکرات ناکامNode ID: 495246
-
’نیب ترامیم کو مشروط کرنا بلیک میلنگ‘Node ID: 495511
جمعے کو جاری کیے گئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس کے تحت 1999 سے آج تک رولز نہیں بن سکے۔ کیا چیئرمین نیب آئین کے آرٹیکلز 240 اور 242 کو بالائے طاق رکھ سکتے ہیں؟
عدالت نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور رجسٹرار آفس کو ازخود نوٹس الگ سے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے نیب کے تمام ڈائریکٹر جنرل کی تقرری پر اٹارنی جنرل سے تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔
واضح رہے کہ بدھ کو سپریم کورٹ میں نیب افسران کے نام پر پیسے لینے والے ملزم محمد ندیم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مارشل لا میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ مارشل لا سے بہتر ہے دوبارہ انگریزوں کو حکومت دے دی جائے۔ بار بار مواقع دیے مگر نیب کے غیر قانونی کام جاری ہیں۔ نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔
اس موقع پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم نے نیب کے ڈی جی عرفان منگی بن کر مختلف افسران اور اہم شخصیات بن کر کالیں کیں۔ ملزم کے خلاف نیب کی جانب سے مقدمہ درج کروایا گیا جب کہ فرانزک کی ابھی تک رپورٹ نہیں آئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ محمد ندیم مڈل پاس ہیں ،بہاولپور سے وہ کیسے نیب افسر بن کر کال کرتے تھے۔ ملزم نے پی ایس او کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو ڈی جی نیب بن کر کال کی۔ تفتیش کے مطابق ملزم کے پاس صرف ایک بھینس ہے۔ ملزم کے پاس بڑے بڑے افسران کے موبائل نمبرز کیسے آگئے۔
