پاکستان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے اٹوٹ رشتہ ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان اور سعودی عرب کے خارجہ امور کے ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مذہب اور بھائی چارے کا مضبوط اور نہ ختم ہونے والا رشتہ ہے جسے چھوٹی موٹی غلط فہمیوں سے نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمہ جہت اور عوامی نوعیت کے ہیں۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے حالیہ بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے دو سابق خارجہ سیکرٹریز کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات مذہبی، سیاسی اور عسکری نوعیت کے ہیں جو مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ بیان کو کچھ سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا اور کچھ دونوں ممالک کی مخالف قوتوں نے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی مگر دونوں ممالک نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ باہمی تعلقات ہر سطح پر مضبوط ہیں۔
’دونوں ممالک کے درمیان ایک اسلامی رشتہ ہے جو بہت مضبوط ہے پھر سیاسی تعلقات کا رشتہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک انٹرنیشنل فورمز پر ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہتے ہیں اس کے علاوہ ایک سکیورٹی بانڈ بھی ہے جس کی تاریخ میں بہت مثالیں ہیں کہ پاکستان سعودی عرب کی سلامتی کو اپنی سلامتی جیسا عزیز سمجھتا ہے چاہے وہ مکہ مکرمہ میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن ہو یا عراق امریکہ جنگ کے دوران پاکستان کا تعاون ہو۔‘
سابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر بھی سعودی عرب نے پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے اور ’میرے خیال میں مخالفین کی خواہشات کے باجود دونوں ممالک کے تعلقات پر کبھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سعودی پاکستان تعلقات تہہ در تہہ مضبوط ہیں اور کسی بھی تیسرے ملک سے تعلقات کی وجہ سے یہ متاثر نہیں ہوں گے۔
’یہ پتنگ کی کچی ڈوری نہیں ہے یہ مذہب کا نا ٹوٹنے والا رشتہ ہے’
ایک اور سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان کا وجود سعودی عرب کی طاقت ہے اور دونوں ممالک اسلام کے مضبوط رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ’یہ پتنگ کی کچی ڈوری نہیں ہے یہ مذہب کا نا ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کا بیان ایک پالیسی بیان نہیں تھا بلکہ ایک صحافی کے ساتھ کی گئی سیاسی گفتگو تھی۔ پالیسی بیان ہوتا تو دفتر خارجہ میں دیتے۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد خان نے کہا کہ سعودی عرب میں اسلام کے مقدس ترین مقامات ہیں اور پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اس وجہ سے دونوں ملک کے تعلقات تاریخی طور پر مضبوط رہے ہیں۔ انہوں نے کہا سابق سعودی حکمرانوں کے دور سے یہ رشتے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان کے وجود کا حصہ ہے اور اس وقت وہاں ظلم ہو رہا ہے اس لیے پاکستان کشمیر کے معاملے پر ہمیشہ کی طرح سعودی حمایت کی توقع کرتا ہے۔
نئی صورتحال میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ دونوں ممالک کے سفارتکار زیادہ سے زیادہ رابطے بڑھا کر غلط فہمیاں ختم کریں اور کسی طرح کی کمزوری نہ ہونے دیں۔
اسلامی تعاون تنظیم اور سعودی عرب کا کشمیر پر حالیہ کردار : چند حقائق
گزشتہ چند دنوں سے کشمیر کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم کا کردار میڈیا پر کافی زیر بحث رہا ہے مگر سفارتی زرائع کا کہنا ہے کہ اس کے حوالے سے چند حقائق نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ جس میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ایک سعودی نہیں خود مختار اسلامی بین االقوامی تنظیم ہے جس کی سربراہی وقتاً فوقتاً مختلف اسلامی ممالک کی شخصیات کرتے ہیں۔
اگرچہ کہ تنظیم کا صدر دفتر سعودی شہر جدہ میں واقع ہے مگر اس سے اس کی خودمختاری پر اسی طرح فرق نہیں آتا جیسے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز کے نیویارک (امریکہ) میں ہونے سے اس کی آزادنہ حثیت کو چیلنج نہیں کیا جاتا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق ادارے نے کشمیری عوام کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا، جیسا کہ اس ادارے نے 1994 میں جدہ میں جموں و کشمیر کے معاملے پر رابطہ کمیٹی قائم کی تھی، اور یہ کمیٹی متواتر اجلاس کرتی ہے، جس کا آخری اجلاس 22 جون 2020 کو منعقد ہوا تھا، اسلامی تعاون تنظیم کی جموں وکشمیر سے متعلق رابطہ کمیٹی نے وزرائے خارجہ کی سطح پر ایک مجازی اجلاس منعقد کیا۔ اس میں سعودی عرب، پاکستان، آذربائیجان، ترکی اور نائجیریا کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے، اور یہ تمام اقدامات اس تنظیم کی سطح پر مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔
مجموعی طور پر، اگست 2019 سے، تنظیم کی رابطہ کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں تین اجلاس منعقد کیے، جن میں سے دو وزرائے خارجہ کی سطح پر تھے، اور کشمیری عوام کے مقصد کی حمایت میں سخت بیانات جاری کیے۔
یہاں ایک اور کمیٹی بھی شامل ہے جو کشمیر کے شہدا سے متعلق تنظیم سے وابستہ ہے اور یہ وقتاً فوقتاً جدہ میں بھی ملتی ہے، اور اس کا آخری اجلاس 13 جولائی 2020 کو ہوا تھا، اور اس موقع پر قونصل جنرل خالد مجید اور اسلامی تعاون تنظیم کے مستقل مندوب جناب رضوان شیخ نے
مہمانان خصوصی کے طور پر شرکت کی تھی، اس کے علاوہ کشمیر کمیٹی کے ممبران بھی اس اجلاس میں شریک تھے، قونصل جنرل خالد مجید نے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ جدہ میں کشمیر کمیٹی ایک موثر جہت ہے اور مسئلہ کشمیر کی آواز اٹھانے میں فعال کردار ادا کرتی ہے۔
کیا کشمیر پر سعودی اور پاکستانی موقف میں کوئی فرق ہے؟
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کیا مطالبہ کر رہا ہے؟ پاکستان کشمیری تنازع کے پرامن اور منصفانہ حل کی حمایت کے اپنے موقف پر زور دیتا ہے، اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حقوق اور ان کی امنگوں اور ان کے حق خودارادیت کی تصدیق کرتا ہے، اور یہ کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی منصفانہ حل تلاش کیے بغیر مستقل استحکام اور سلامتی جنوبی ایشیا میں حاصل نہیں کی جاسکتی جو تنازع کے فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ پاکستان اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ بات چیت کے ذریعے پر امن طریقے سے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے، اور امید رکھتا ہے کہ ہندوستان بھی مثبت جواب دے تاکہ دونوں ممالک کے درمیانتصفیہ طلب مسائل کو پر امن طریقے سے حل کیا جائے جن میں سرفہرست مسئلہ کشمیر ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق در حقیقت، پاکستانی موقف کی حمایت اور سیاسی اور سفارتی حل پر توجہ دینے والے مطالبات اور مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے مطالبے کی حمایت میں سعودی عرب اور پاکستان کے خیالات، مطالبات اور تمام بیانات میں اتفاق رائے ہے۔
مسئلہ کشمیر سمیت تمام امور کے بارے میں سعودی عرب کی پالیسی، سفارتی اور سیاسی مواقف کسی قسم کے جذبات سے کھیلنے اور پاپولزمسے دور رہنے پر قائم ہے۔
ذرائع کے مطابق سعودی قیادت تنگ انفرادی مفادات یا کسی مخصوص نظریہ یا آئیڈیالوجی کی خدمت کے لیے اسلامی اور عالمی امور کا استحصال کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہے، بلکہ وطن اور اپنے بھائیوں اور دوستوں کے مفادات کو اولین ترجیح دیتی ہے، اور گذشتہ عشروں میں سعودی پالیسی یہی ہے جہاں الفاظ اور عمل میں مطابقت پائی جاتی ہے۔
جو کچھ اسلامی تعاون تنظیم سے پاکستان کے انخلا یا متوازی چھوٹی ہستی کی تشکیل کے امکان کے بارے میں کچھ کہہ رہا ہے وہ اس جذباتی راستہ کی طرف لے جائے گا جو اسلامی صفوں کو توڑ ڈالتا ہے اور اسلامی موقف میں دراڑ ڈالتا ہے، اور کسی بھی خاص نظریہ یا آئیڈیالوجی پر مبنی کوئی بھی بلاک کا انجام ناکامی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان اور ہمارے کشمیری بھائی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
پاپولزم جہتوں کے بیانات پر یقین کرنا جو ان ممالک کے ذاتی یا اندرونی سیاسی مفادات پر مبنی ہوں اور یہ سمجھنا کہ بوقت ضرورت ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے، یقیناً بڑی غلطی ہے، مثال کے طور پر آپ کو کچھ علاقائی ممالک اسرائیل کے خلاف سخت بیانات دیتے ہوئے اور فلسطینی
مقصد کے لیے ان کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان ممالک کے صیہونی وجود کے ساتھ مضبوط مراسم، سفارتی، تجارتی اور فوجی تعلقات ہیں، تو کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ایسے ممالک، فلسطین کو آزاد کرائیں گے؟ یہ تنگ مفادات کی خاطر اسلامی امور کا سودا کر رہے ہیں۔
یہی مسئلہ کشمیر کے معاملے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ بیانات زمین کو آزاد نہیں کریں گے اور مخالفین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے، بلکہ عوام کے دلوں سے اس کا غلط ہونے کی کیفیت کو ختم کر دیتا ہے اور بحران کے نتیجے میں کسی حقیقی مثبت اثر سے دور کر دیتا ہے، بلکہ فتوحات کی بھوکی اقوام بغیر کسی نتیجے کے بیانات کے سراب کے پیچھے چل پڑتی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے سعودی حمایت کوئی ہنگامی یا نیا معاملہ نہیں ہے، اور پاکستانی یہ بات دوسروں سے بہتر جانتے ہیں، اور یہ کہ یہ تعاون محض معاشی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے پہلو تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ مختلف پہلوؤں تک ہے، اور دونوں برادر ممالک کے عوام کے مابین تعلقات مضبوط اور قریبی ہیں اور مملکت بیرون ملک سب سے بڑی پاکستانی کمیونٹی کی میزبانی کرتی ہے جس کے ذریعے پاکستانی معیشت کو سالانہ ساڑھے چار ارب ترسیلات زر کی مددملتی ہے، اور اسلام آباد ہمیشہ سعودی عرب کو ایک ایسا پر اعتماد دوست سمجھتا ہے جس کا ضرورت پڑنے پر سہارا لیا جاسکتا ہے اور اس کی طرف سے ایسا فوری جواب مل جاتا ہے جو بعض اوقات توقعات سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔