نواب محمد حیات خان کا انتقال 1901 میں ہوا (فوٹو: وکی پیڈیا)
محمد حیات خان نے جب پندرہ سال کی عمر میں انتہائی کسمپرسی اور خوف کے عالم میں اپنی والدہ کے ہمراہ گھر چھوڑا تو ان کے مقتول والد کی بہادری اور وفاداری کے قصے چہار سو تھے۔
لیکن ان پر مصیبت ایسی آن پڑی تھی کہ انہیں اپنی جان بچانے کے لیے راولپنڈی کے نواح میں واقع اپنے گاؤں واہ سے فرار ہونا پڑا۔ جب وہ بے سرو سامان گھر سے بھاگ رہے تھے، اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے 1848 میں ان کے والد کرم خان نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر برطانوی فوج کے افسر جان نکولسن کو اس وقت مرنے سے بچایا تھا جب وہ سکھوں کے ایک حملے میں بری طرح زخمی ہو گئے تھے۔
حیات خان کے والد اپنے قبیلے کھتر کے سردار تھے اور انگریزوں کے اتحادی تھے۔ جان نکولسن کو سکھوں سے بچانے کے بعد وہ ان کے گہرے دوست بن گئے تاہم اس واقعے کے کچھ ہی عرصہ بعد حیات خان کے سوتیلے چچا نے جائیداد کے تنازعے پر ان کے والد کو قتل کر دیا اور حیات خان کو اپنی جان بچانے کے لیے والدہ کے ہمراہ وہاں سے فرار ہونا پڑا۔
وہ گرتے پڑتے ہزارہ پہنچے جہاں اس وقت جان نکولسن تعینات تھے۔
پشتو کے ایک لکھاری ڈاکٹر عبد الطیف یاد نے ان کے متعلق لکھے گئے ایک مضمون میں بیان کیا ہے کہ نکولسن نے اپنے دوست کی موت کا سنتے ہی حیات خان کو اپنی نگہداشت میں لے لیا اور انہیں فارسی سیکھنے پر مامور کر دیا۔ کامیابی سے فارسی سیکھنے کے بعد نکولسن نے حیات خان کو اپنا اردلی اور مترجم تعینات کر دیا اور پھر ان کے مرتے دم تک وہ ان کے ساتھ رہے۔
جب 1857 کی بغاوت ہوئی تو نکولسن انگریزوں کے لیے دہلی تسیخر کرنے کی غرض سے اپنے دستے کی قیادت کر رہے تھے۔ 14 ستمبر 1857 کو ہونے والی ایک جھڑپ میں وہ شدید زخمی ہوئے اور کچھ ہی دنوں بعد دم توڑ گئے۔
اس وقت نکولسن کی عمر پینتیس سال تھی اور انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ سو اس وقت حیات خان ہی تھے جو آخری وقت تک ان کے ساتھ رہے اور ان کی بھرپور خدمت کی۔
نکولسن کو جب یقین آ گیا کہ اب وہ زندہ نہیں رہیں گے تو انہوں نے چیف کمشنرپنجاب کے نام ایک خط بھجوایا جس میں انہوں نے سلطنت برطانیہ کو حیات خان کا خیال رکھنے کی سفارش کی۔ اس کے اگلے روز 22 ستمبر 1857 کو وہ چل بسے۔
حیاتِ نو کا آغاز
نکولسن انگریز سرکار کے لیے ایک ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ انہوں نے افغانستان سے پنجاب اور دہلی تک بے شمار معرکوں میں اپنی فوج کو کامیابیاں دلائی تھیں اور ان کے کردار کی بہت اہمیت تھی۔
ان کے خط کے بعد انگریزوں نے حیات خان کو سر آنکھوں پر بٹھا لیا، ان کو سردار کا لقب دیا گیا اور پنجاب کے علاقے تلہ گنگ جو اس وقت ضلع چکوال کی ایک تحصیل ہے، میں تھانیدار بنا کر بھیج دیا گیا۔
ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے کچھ ہی عرصے بعد انہیں تحصیل دار کا عہدہ سونپا گیا اور پھر انہیں بنوں میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات کر دیا گیا۔
انہیں 1864 میں مزید ترقی دے کر افغانستان مشن پر بھیج دیا گیا جہاں وہ طویل عرصہ قیام پذیر رہے اور اسی دوران اپنے تجربات پر مشتمل مشہور کتاب ’حیات افغانستان‘ لکھی۔
مصنف ظفر اقبال محمد اپنی ایک تصنیف ’کچھ اہم خدمات‘ میں لکھتے ہیں کہ حیات خان کو 1872 میں کمشنر بنا دیا گیا۔ انہوں نے دوسری اینگلو افغان جنگ میں بھی حصہ لیا، وہ جنرل فریڈر کے متعمد خاص تھے اور ان کے ساتھ کُرم ایجنسی میں رہے۔ اس کے بعد انہیں قبائلی علاقوں میں پولیٹکل ایجنٹ بھی تعینات کیا گیا۔
اینگلو افغان جنگ کے بعد انہیں پنجاب کی سول انتظامیہ میں جج کا عہدہ سونپ دیا گیا جس پر وہ 1880 سے 1888 تک فائز رہے۔ اس کے بعد وہ پنجاب کی قانون ساز کونسل کے رکن بنے۔ 1899 میں اعلیٰ خدمات کے صلے میں ان کو نواب کا خطاب دے دیا گیا۔
علی گڑھ کالج میں کردار
کہا جاتا ہے کہ نواب محمد حیات خان سر سید احمد خان کے قریبی دوستوں میں شامل تھے جو ان دنوں محمڈن کالج بنانے کے لیے کوشاں تھے۔ بعدازاں یہی کالج علی گڑھ یونیورسٹی بنا اور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مرکزی درسگاہ ثابت ہوا۔ انہوں نے یہاں 1888، 89 اور 90 میں ہونے والی سالانہ ایجوکیشن کانفرنسز کی صدارت بھی کی۔
واہ سے وابستگی
برصغیر بشمول افغانستان کے بیشتر علاقوں میں اہم ذمہ داریاں نبھانے اور کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود نواب محمد حیات خان نے اپنے آبائی علاقے ’واہ‘ سے ناطہ نہیں توڑا اور اپنی آخری عمر یہیں گزاری۔ ان کا انتقال 1901 میں یہاں ہی ہوا۔
نواب حیات خان کے بعد ان کی اولاد نے بھی بہت نام کمایا اور ان کے بیٹے سر سکندر حیات خان جو علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے، آل انڈیا مسلم لیگ کے سرکردہ اراکین اور قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور گورنر بھی رہے۔ 1942 میں ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے شوکت حیات خان طویل عرصہ تک پاکستان کی سیاست میں نمایاں رہے۔
ان کا انتقال 1998 میں ہوا، اسی طرح ان کے بیٹے سکندر حیات خان جونیئر بھی سیاست میں آئے اور انتخابات میں حصہ لیا۔
یادگار نکلسن
راولپنڈی اسلام آباد کے نواح میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر نکلسن کی ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے جو آج بھی اسی حالت میں موجود ہے۔ یہ یادگار 1868 میں انگریز سرکار کی جانب سے عین اس مقام پر بنائی گئی جہاں وہ سکھوں کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہوئے تھے اور کرم خان نے انہیں جہاں سے اٹھایا تھا۔
جی ٹی روڈ پر راولپنڈی سے ٹیکسلا کی طرف جاتے ہوئے اسلام آباد سے 30 کلومیٹر آگے اور ٹیکسلا سے پانچ کلومیٹر پیچھے مارگلہ پہاڑی سلسلے کے ایک سرے پر واقع یہ یادگار ایک مینار یا ستون کی مانند ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک باغ بھی بنایا گیا تھا جس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ چالیس فٹ اونچی یہ یادگار پہاڑی کے اوپر واقع ہے اور دور دور سے نظر آتی ہے۔