Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تھا جس کا انتظار،وزیراعظم نے پشاور بی آر ٹی کا افتتاح کر دیا

بی آر ٹی کے افتتاح کے لیے پہلے بھی کئی بار تاریخ مقرر کی گئی۔ فوٹو: بی آر ٹی سروس
دیر آید درست آید‘ کہیں یا ’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘ جیسے الفاظ  اچھالیں لیکن بہرحال آ ہی گیا وہ دن، جس کا وعدہ ہے۔
جمعرات کو وزیراعظم عمران خان نے  پشاور میں بی آر ٹی سروس کا افتتاح کر دیا ہے۔
پشاور کی بی آر ٹی یعنی بس ریپڈ ٹرانزٹ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کے لیے بہت انتظار کیا گیا۔

سیاسی پس منظر

پچھلے دور حکومت میں جب تحریک انصاف صرف خیبر پختونخوا تک محدود تھی تب عمران خان سمیت دیگر رہنما ن لیگ کے منصوبے میٹرو بس پر شدید تنقید کرتے اور طنزا ’جنگلہ بس‘ کہتے مگر پھر جانے کیا ہوا کہ ایک روز اعلان کر دیا گیا کہ پشاور میں بھی ایسی ہی سروس چلے گی لیکن نام مختلف ہوگا، اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ پارٹی کو کسی نے شاید سمجھا دیا تھا کہ ’جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔‘

 

سنگ بنیاد

19 اکتوبر 2017 کو اس منصوبے کا اعلان ہوا، جس کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کیا۔
اس موقع پر انہوں نے بتایا تھا کہ اس سے روزانہ چار لاکھ سے زائد افراد مستفید ہوں گے
اس منصوبے کے لیے چھ مہینے کا وقت رکھا گیا جبکہ اخراجات کا تخمینہ 49 ارب روپے لگایا تھا۔

منصوبے کا آغاز

افتتاح کے فوراً بعد ہی منصوبے کا آغاز کر دیا گیا، پھر کہیں کھدائی شروع ہوئی اور کہیں توڑ پھوڑ، یہ سلسلہ دو سال سے زائد عرصہ چلا، جس کی وجہ سے پشاور کے باسی شدید مشکلات کا شکار ہوئے۔
پشاور ایک ایسا شہر ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ دوسرے شہروں سے روزانہ کام کے لیے جاتے ہیں۔
ٹریفک کا نظام بری طرح سے متاثر ہوا، شروع میں جس قدر تیزی دکھائی گئی بعد ازاں کام اتنا ہی سست پڑنا شروع ہو گیا، جس کے اثرات بہت دور تک گئے۔ بہرحال منصوبہ چلتا رہا اور عوام انتظار کرتے رہے۔

پشاور بی آر ٹی کا روٹ 26 کلومیٹر طویل ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

تاریخ پے تاریخ

19 اکتوبر 2017 کو افتتاح کے وقت اس کو چھ ماہ میں پورا کرنے کا دعویٰ کیا گیا جو اگلے سال یعنی 2018 کا اپریل بنتا تھا لیکن یہ تاریخ آئی بھی اور گزر بھی گئی۔ پھر ہر کچھ عرصہ بعد کسی نئی تاریخ کا اعلان ہوتا۔ یوں تقریباً نو تاریخیں گزر چکی ہیں لیکن افتتاح نہ ہوا، امید ہے آج ایسا نہیں ہو گا۔

بس کا روٹ

پشاور جی ٹی روڈ پر واقع چمکنی کے علاقے سے بی آر ٹی کا روٹ شروع ہوتا ہے۔ یہ تقریباً 26 کلومیٹر طویل ہے، جو ہشتنگری، فردوس، صدر، خیبر بازار اور یونیورسٹی سے ہوتا ہوا حیات آباد اور کارخانو مارکیٹ تک جاتا ہے۔
اس میں کچھ حصہ معلق یعنی طویل پلوں پر مشتمل ہے، خصوصاً صدر کے علاقے میں، جبکہ چمکنی سے لے کر سٹیشن تک زمینی راستہ ہے۔ اس پورے روٹ میں کئی پل اور انڈر پاسز بھی بنائے گئے ہیں۔ جبکہ ہشتنگری کے مقام پر ایک ایسا انڈر پاس بنایا گیا ہے جو دراصل مارکیٹ ہے، زمین کے اندر قطار در قطار دکانیں بنائی گئی ہیں، یہاں اس منصوبے سے قبل بھی زیر زمین دکانیں تھیں تاہم وہ کم تعداد میں تھیں مگر بی آر ٹی منصوبے میں ان کو بڑھایا گیا۔

تحریک انصاف کے اس منصوبے کی تاخیر پر شدید تنقید کی گئی۔ فوٹو: بی آر ٹی سروس

منصوبے کے لیے 220 بسیں ہیں جبکہ روٹ پر 31 سٹاپ ہیں، اور چمکنی سے کارخانو تک کا سفر تقریباً ایک گھنٹے میں طے ہو سکے گا۔

منصوبے میں رکاوٹیں

بدقسمتی سے یہ منصوبہ مختلف اوقات میں مختلف مسائل کا شکار ہوتا رہا، اس کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلیاں کی گئیں، کئی مقامات پر تعمیر کے بعد پھر سے توڑ پھوڑ کی گئی یوں یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوتا رہا۔  
جبکہ ہر کچھ عرصہ بعد کسی نہ کسی مقام پر کوئی خامی سامنے آ جاتی جس کی وجہ سے لاگت بڑھتی رہی اور وقت بھی۔

نئی حکومت

سنہ 2018 میں انتخابات ہوئے اور تحریک انصاف کے پی سمیت مرکز اور دو صوبوں میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی، محمود خان وزیر اعلیٰ بنے اور پرویز خٹک وزیر دفاع، اس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ چونکہ تحریک انصاف مزید پاور میں آ گئی ہے اس لیے منصوبہ بہتر طور پر آگے بڑھے گا مگر ایسا نہ ہو سکا، نئے وزیر اعلیٰ سمیت کئی دیگر وزرا بھی منصوبے سے دور ہی دور دکھائی دے بہرحال منصوبہ چلتا رہا۔

صوبائی حکومت کو توقع ہے کہ بی آر ٹی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ کم ہو جائے گا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

عدالت سے نیب تک

جولائی 2018 میں پشاور ہائیکورٹ نے منصوبے کی تحقیقات کا کام نیب کے سپرد کیا، فیصلے میں لکھا گیا تھا کام کا دائرہ 50 فیصد تک بڑھایا گیا حالانکہ تکمیل کی تاریخ اکیس سے چوبیس جون تک تھی۔
یہ بھی لکھا گیا کہ منصوبے کے لیے ابتدا میں پچاس ارب لاگت بتائی گئی جب سڑسٹھ اعشاریہ نو ارب تک چلی گئی ہے جبکہ ٹھیکہ بھی اس کمپنی کو دیا گیا جو بلیک لسٹ ہو چکی ہے۔ اسی طرح دسمبر 2019 کو پشاور ہائیکورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت نے بغیر کسی پیشگی تیاری اور منصوبہ بندی کے بغیر پراجیکٹ شروع کر دیا تھا۔
فروری 2020 میں سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت سے حتمی تاریخ طلب کی اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تحقیقات سے روک دیا، اس وقت حکومت نے 31 جولائی 2020 کی تاریخ بتائی تھی۔

سٹیشن پر کیا کچھ ہو گا

اس کے سٹیشن کم و بیش ویسے ہی ہیں جیسے میٹرو سروس کے ہیں، یہاں پنکھے، پانی اور دوسری سہولتوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہر پانچ منٹ بعد بس پہنچے گی جو بیس سیکنڈ رکے گی۔
معذور افراد کے لیے کچھ خصوصی سہولتیں بھی ہیں۔
سکیورٹی کا بھی انتظام ہے، ہر اندر داخل ہونے والے کی تلاشی لی جائے گی۔
جبکہ روز آنے جانے والوں کو ’زو کارڈ‘ کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔ گیٹ سے گزر کر سڑک کی مطلوبہ سمت تک پہنچا جا سکتا ہے۔

بی آر ٹی کے ذریعے چمکنی سے کارخانو تک کا سفر تقریباً ایک گھنٹے میں طے ہو سکے گا (فوٹو: بی آر ٹی)

سروس ٹائمنگز

اس سروس کے لیے مخصوص کیے جانے والے اوقات کار بھی تقریباً وہی ہیں جو میٹرو بس سروس کے ہیں، ہفتے میں سات دن بسیں چلیں گی، یہ دورانیہ صبح چھ سے لے کر رات دس بجے تک ہو گا۔

بی آر ٹی اور پشتو ادب

یہ منصوبہ پشتونوں کے لیے کیسا ثابت ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے نام سے ٹپے اور گانے تک بنے۔
جانان مے رازی خو راتلے نہ شی
خدایا غرقہ بی آر ٹی کڑے
میرا محبوب آنا چاہتا ہے لیکن آ نہیں پا رہا، خدا بی آر ٹی کو غارت کرے
اس ٹپے کے علاوہ ایک گلوکار اور شاعر شیر زمان نے اس پر پورا گانا بنایا، جو دراصل ایک معروف پشتو گانے کی پیروڈی تھی۔
’نہ دے بی آر ٹی شوہ، نہ بسونہ
دروغ جنہ، دروغ جنہ
یعنی نہ بی آر ٹی بنی اور نہ بسیں آئیں، جھوٹے۔
 

شیئر: