Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم کورونا کی کہانیاں سنایا کریں گے

پاکستان میں لاک ڈاؤن تقریباً پانچ ماہ کے لیے نافذ رہا۔ فوٹو اے ایف پی
شکر صد شکر خدائے بزرگ و برتر کا کہ پاکستان میں کورونا کا زور ٹوٹ رہا ہے ورنہ لاک ڈاؤن تو دنیا میں ترقی یافتہ ممالک نے بھی بہت کیے، ایس او پیز بنائے بھی اور عمل درآمد بھی کروایا۔ شعبۂ صحت میں ان ممالک کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے لیکن پھر بھی وہاں کورونا نے جس سطح کی تباہی مچائی اس سے ہم محفوظ رہے ہیں۔
اسے سمارٹ لاک ڈاؤن کہیں یا ٹارگٹڈ لاک ڈاؤن، یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ بطور قوم ہم نے حکومتی ہدایات پر کتنا عمل کیا اور جو لاک ڈاؤن کی پالیسی تھی اس پر انتظامیہ کتنا عمل درآمد کرا پائی ہے۔ بہرحال، وفاق اور تمام صوبائی حکومتیں، تعریف کی مستحق ہیں کہ آزمائش کی گھڑی وقتی طور پر ٹل گئی ہے لیکن کورونا کا مجموعی خطرہ ابھی نہیں ختم ہوا۔ احتیاط کا دامن ابھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔
لاک ڈاؤن تقریباً اُٹھ گیا ہے۔ پانچ مہینے بعد زندگی آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے۔ میں اپنے آپ کو دیکھوں تو کورونا کو بھی بھگتا اور اس دوران والدہ کے انتقال جیسی ذاتی ٹریجڈی کا بھی سامنا کیا- وقت کہنے کو تو کچھ مہینے کی تھی مگر اس دوران خوف، احتیاط، بے یقینی اور کبھی تو وحشت کا بھی دور دورہ رہا۔ اگر مڑ کے دیکھیں تو یہ لاک ڈاؤن اور وبا اپنے پیچھے کئی سبق چھوڑ کر جا رہی ہے۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہر ذی شعور کے رہنے کے لیے خدا نے تین گھر بنائے ہیں۔ ایک یہ دھرتی، دوسرا اس کا جسم اور تیسرا اس کا ذہن۔ کووڈ نے ان تینوں ہی پہلوؤں کو متاثر کیا ہے۔
 ہمارا پہلا گھر، ہمارا جسم جس کے بارے میں، سال 2020 نے شدت سے احساس دلا دیا ہے کہ اگر آپ کے پاس صحت ہے تو گویا آپ کا شمار دنیا کے رئیس لوگوں میں ہوتا ہے۔ کووڈ نے ہماری صحت کو جھنجوڑ ڈالا ہے- قوت مدافعت یا ایمیونٹی سے لے کر اینٹی باڈیز تک کی اصطلاحات اب روزمرہ گفتگومیں شامل ہوگئی ہیں۔ موجودہ دنیا نے ڈارون کے بقائے اصلح یا survival of fittest کا عملی مظاہرہ بھی دیکھ لیا ہےاور اس بات میں بھی اب ذرہ برابر شک نہیں رہ گیا کہ معیارِ زندگی کی پہلی ترجیح بے شک صحت ہی ہونی چاہیے- یاد رہے کہ صحت صرف دوا اور علاج کا نہیں بلکہ ورزش, خوراک اور توازن کا نام بھی ہے -

لاک ڈاؤن ہٹنے کے بعد زندگی آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

دوسرا گھر ہمارا ذہن۔ شکریہ 2020 کا، جس نے ہر ذی شعور کو یہ از بر کرا دیا ہے کہ دماغی صحت کا تعلق نہ صرف یہ کہ براہ راست جسمانی صحت سے ہے بلکہ معیار زندگی کا تعین بھی ذہنی کیفیت سےہوتا ہے- پہلے یہ گفتگو چھپ چھپا کر راز و نیاز کے ساتھ کی جاتی تھی لیکن اب ہم نے دیکھا کہ کیسے خوف, افواہیں اور منفی سوچ سے لے کر ڈپریشن، دباؤ اور دیگر ذہنی مسائل کھل کر سامنے آئے اور ان پر کھل کر بات بھی ہوئی-
 بہت سوں نے کووڈ پازیٹو ہونے کے باوجود اس کوخوف کی وجہ سے خفیہ رکھا۔ اب بھی لاک ڈاؤن ختم ہونے کے باوجود anxiety کی وجہ سے والدین بچوں کو سکول بھیجنے پر تیار نہیں ہیں- اس دوران خاندانوں کو بہت وقت ایک ساتھ گزارنے کا موقع ملا جس سے آپس میں قربت کے مواقع ملے اور ایک دوسرے کی قدر بھی ہوئی- یہ بھی پتا چلا کہ زندگی میں کن افراد کی اصل میں اہمیت ہے اور کن سے صرف راہ رسم ہے- گویا زندگی کے گوشوارے کا ایک دفعہ حساب ہوا-

پاکستان میں اب تک کورونا سے دو لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

ہمارا تیسرا گھر، یعنی یہ دھرتی۔ ایک اور ادراک جو اس بارے میں شدت سے ہوا کہ دراصل ہمارے ارد گرد دنیا میں کس قدر اصراف ہے اور ایک پرسکون زندگی گزارنے کے لیے حقیقتاً کس قدر کم چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے- جن اشیا کو ہم ضروریاتِ زندگی سمجھ بیٹھے ہیں دراصل وہ لگثری ہیں۔ ہوٹلنگ سے لے کر قیمتی ملبوسات تک سب بھول گئے اور بس یاد رہا سودا سلف اور آٹا دال - یہ بھی پتہ چلا کہ گھر اور گھر کا سادہ کھانا صحت کے لیے بھی بہتر ہے اور جیب کے لیے بھی۔ اچھے اچھوں نے ملازموں کو چھٹی دے کر خود کام بھی سنبھالے۔
اس دوران ہم زمین پر کتنا بوجھ ڈال بیٹھے ہیں اور قدرت اپنے غیظ وغضب کیا اظہار کبھی، سیلاب، کبھی وباؤں اور کبھی زلزلے کی صورت میں دکھاتی رہتی ہے۔ ان پانچ ماہ میں قدرت کے ساتھ دوبارہ رشتہ جوڑنے کا موقع ملا۔ اور بچپن کے بعد اب کہیں 20 سال کے بعد میں نے دوبارہ جگنو دیکھے ہیں۔ یقیناً یہ موقع ترجیحات کے تعین کا بھی ہے اور جن کے پاس وسائل کم ہیں ان سے یک جہتی کا بھی۔

 کورونا سے دنیا بھر کی معیشت متاثر ہوئی۔ فوٹو اے ایف پی

ایک وقت وہ بھی آئے گا جب ہم کورونا کو یاد کر کے اس کی کہانیاں سنایا کریں گے مگر 2020 کے یہ مہینےموجودہ تاریخ کا ایک ایسا ناقابل یقین دور ہے جس کا اثر بہت عرصے تک ہمارے ساتھ رہے گا اور اس کے سبق بھی ہمیں بھولنے والے نہیں۔
اور اگر اب بھی نہ سبق سیکھ پائے تو قدرت کو اپنا زور بار بار دکھانے سے کون روک سکتا ہے۔

شیئر: