Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز مواد نصاب سے نکالیں‘

حکومت کی جانب سے بل کی مخلافت نہیں کی گئی۔ فائل فوٹو: روئٹرز
پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل پیش کیا گیا ہے جس کے تحت مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت اور توہین آمیز مواد تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں بنایا جا سکے گا جبکہ پہلے سے موجود ایسے مواد کو نصاب سے نکال دیا جائے گا۔
مجوزہ بل میں جبری مذہب تبدیلی، جبری بین المذاہب شادی، نفرت آمیز تقریر اور اقلیتوں کے مذہبی اثاثوں کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
پیر کو پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر محمد جاوید عباسی کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ کس بھی فرد کی جانب سے کسی بھی اقلیتی شہری کی جبری مذہب تبدیلی پر متاثرہ شخص کو حکومت تحفظ اور معاونت فراہم کرے گی اور ایسا کروانے والے کو سات سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔
مجوزہ بل کے تحت بین المذاہب جبری شادی پر ممانعت ہو گی اور کم عمر مذہبی اقلیت کی بین المذاہب شادی کو جبری شادی تصور کیا جائے گا اور ثابت ہو جانے پر بین المزاہب جبری شادی کو منسوخ کر دیا جائے گا۔
بل کے مطابق جبری بین الا مذہب شادی کروانے والے کو 10 سال تک سزا، پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ کم عمر مذہبی اقلیت کی شادی کروانے والے کو 14 سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔  
مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز تقریر پر  تین سال قید، 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں پر تشدد کے جرم کے مرتکب کو تین سال سزا، 50 ہزار جرمانہ ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک کرنے والے کو ایک سال سزا، 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔  
حکومت مذہبی اقلیتوں کے مذہبی اثاثے کا تحفظ کرے گی۔ اقلیتوں کے مذہبی اثاثوں کو نقصان پہچانے والے کو سات سال قید، 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تمام جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے۔
حکومت کی جانب سے بل کی مخالفت نہیں کی گئی جس کے بعد بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔

شیئر: