امریکہ سے ماسٹرز کی ڈگری ہولڈر سعودی خاتون نے پرس اور جوتوں کی مرمت کا کام شروع کیا ہے۔
شیخۃ البازی نے مملکت میں اپنی نوعیت کا نیا پیشہ اختیار کیا ہے۔ پہلی سعودی خاتون ہیں جنہوں نے ’موچی‘ کے پیشے کو آمدنی کا ذریعہ بنایا ہے۔
الاخباریہ چینل سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی خاتون نے نئے پیشے کے انتخاب کے حوالے سے بتایا کہ دراصل اس کے پیچھے ایک قصہ ہے۔ نیویارک میں دیہی و بلدیاتی امور میں ماسٹرز کی طالبہ تھی۔ ایک دن میرے جوتے کی ہیل ٹوٹ گئی۔ یہ جوتا مشہور دکان سے خریدا تھا اور مجھے بے حد پسند تھا۔ سرچ کرکے دیکھا تو پتہ چلا کہ اس کی مرمت ممکن ہے۔
شیخۃ البازی نے بتایا کہ جب دکان سے اپنا جوتا لینے کے لیے گئی تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی کہ وہ بالکل حقیقی شکل میں آگیا تھا- مجھے پتہ چلا کہ جوتوں اور اعلی درجے کے پرس میں خرابی کی مرمت اچھے سے ہوجاتی ہے۔ بعض خواتین سمجھتی ہیں کہ اب ان کا پرس استعمال کے قابل نہیں رہا اور وہ قیمتی پرس کو کچرے کے حوالے کردیتی ہیں۔ یہی سوچ برانڈ جوتوں کے بارے میں بھی ہوتی ہے۔
سعودی عرب واپس آنے کے بعد میں نے یہ کام شروع کردیا کیونکہ میرے علم کے مطابق مجھ سے پہلے کبھی کسی نے یہ کام نہیں کیا تھا-
سعودی خاتون کا کہنا تھا کہ جوتے اور پرس بار بار استعمال کرنے اور دھوپ لگنے کی وجہ سے اپنی چمک دمک کھو دیتے ہیں۔ ترمیم اور تجدید سے ان کی اصل رنگت بحال ہوجاتی ہے۔
البازی نے سکالر شپ پر بیرون مملکت تعلیم حاصل کرنے والے سعودی طلبہ و طالبات کو مشورہ دیا کہ وہ وہاں صرف ڈگری کے حصول میں نہ پڑیں بلکہ ڈگری کے ساتھ نئےتصورات لے کر آئیں۔ کوئی نہ کوئی ایسا ہنریا کاروبار سیکھ کر آئیں جسے وہ اپنے معاشرے میں شروع کرسکیں اور اس سے وطن عزیز کو فائدہ ہو۔
واضح رہے کہ شیخۃ البازی سعودی عرب میں اعلی کوالٹی کے پرس اور جوتوں کی ریپئرنگ کی دکان ’لاذرسبا‘ کھولے ہوئے ہیں۔