Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ترکی بحیرہ روم میں تصادم کا خطرہ مول لے رہا ہے‘

داؤد اوغلو کے مطابق اردوغان کی سفارت کاری پر طاقت کو ترجیح دینے کی پالیسی غلط ہے (فوٹو: اے ایف پی) (فوٹو:
ترکی کے سابق وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو نے خبردار کیا ہے کہ ترکی سفارت کاری پر طاقت کو ترجیح دے کر مشرقی بحیرہ روم میں مسلح فوجی تصادم کا خطرہ مول لے رہا ہے۔
داؤد اوغلو بطور وزیر خارجہ اور وزیر اعظم صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت کے پہلے عشرے میں تصادم سے گریز کی خارجہ پالیسی کے وکیل رہے ہیں۔
اوغلو کی پڑوسیوں کے ساتھ ’زیرو مسائل‘ کی پالیسی اردوغان کی یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ  اپنے دور حکومت کے شروع میں معاملات طے کرنے کی پالیسی کا اہم ستون رہی ہے۔
داؤد اوغلو گزشتہ سال اردوغان کی پارٹی سے الگ ہوکر اپنی سیاسی جماعت بنائی تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے داؤد اوغلو نے ترکی کی ایگزیکٹیو پریزیڈنسی کے نظام کے تحت مطلق العنانیت کی طرف جھکاؤ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے اردوغان کی حکومت پر کئی چیلینجز بشمول معیشت، کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور بحیرہ روم میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو مس ہینڈل کر نے کا الزام لگایا۔ 
گزشتہ مہینے ترکی نے ایک سروے جہاز کو بحیرہ روم کے اس حصے میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کرنے کے لیے بھیجا تھا جس پر یونان ملکیت کا دعویٰ کر رہا ہے۔
یونان نے ترکی کے اقدام کو غیر قانوی قرار دے دیا تھا۔ دونوں نیٹو ممبران کے درمیان میری ٹائم اکنامک زون کے حدود پر تنازعہ ہے۔
یورپی یونین نے اپنے ممبران یونان اور قبرص کی طرف داری کرتے ہوئے ترکی پر معمولی پابندیاں عائد کی۔ بعد میں ترکی نے بحیرہ روم میں جنگی جہاز بھیج دیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مسلح تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
داؤد اوغلو کا کہنا تھا کہ یونان کی جانب سے ترکی کی ہزاروں مربع میل سمندری حدود پر دعویٰ کے حوالے سے ترکی کے تحفظات بالکل جائز ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے صدر اردوغان کا طریقہ کار غلط اور خطرناک ہے۔
’بدقسمتی سے ہماری حکومت مناسب طریقے سے سفارت کاری نہیں کر رہی ہے۔‘
ان کے مطابق اگر ترکی اور یونان دونوں نے بیک وقت سفارت کاری پر طاقت کو ترجیح دی تو کسی بھی وقت بحران کھڑا ہو سکتا ہے اور شدید ہوسکتا ہے۔۔
اوغلو کے مطابق ترکی کو یورپی یونین سے واضح طور پر کہنا چاہیے کہ ’آئیں میز کے گرد بیٹھیں اور تمام خیالات کا تبادلہ کریں۔‘

داؤد اوغلو کے مطابق ترکی کی حکومت مناسب طریقے سے سفارت کاری نہیں کر رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ترکی کو یونان کے ساتھ بھی بیٹھنا چاہیے اور تمام ایشوز پر بات چیت کرنا چاہیے تاکہ کشیدگی میں کمی ہو۔
اردغان حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ مہینے وہ یونان کے ساتھ بات چیت بحال کرنے کا اعلان کرنے والے تھے کہ یونان نے مصر کے ساتھ اپنی بحری سرحدیں طے کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں ترکی کی سرحدیں کم ہوگئی۔
ترکی نے احتجاجاً یونان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ منقطع کیا۔ کشیدگی میں کمی لانے کے لیے جرمن وزیر خارجہ کی جانب سے گزشہ مہینے ترکی اور یونان کے دورے کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

شیئر: