رپورٹس میں رواں سال دونوں فوجیوں کی جانب سے ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں اعتراف کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ دونوں نے میانمار کے شمالی ریاست رخائن میں درجنوں روہنگیا مسلمانوں کو قتل، ریپ کرنے اور انہیں اجتماعی قبروں میں دفنانے کا اعتراف کر لیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکی کہ دونوں فوجیوں نے جن جرائم کا اعتراف کیا ہے وہ انہوں نے کیے بھی یا نہیں۔
میانمار کی حکومت اور فوج نے اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔
رپورٹس کے مطابق دونوں فوجی ’اراکان آرمی‘ نامی باغی گروپ کی تحویل میں تھے جب انہوں نے یہ اعترافات کیے۔ مذکورہ گروپ رخائن ریاست میں میانمار کی فوجوں سے لڑ رہا ہے۔
دونوں کو ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ لے جایا گیا ہے جہاں ان پر یا تو مقدمہ چلایا جائے گا یا وہ بطور گواہ پیش ہوں گے۔
رپورٹس میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دونوں فوجی ’اراکان آرمی‘ کے ہاتھوں کیسے چڑھے، وہ اعتراف کیوں کیے اور انہیں دی ہیگ کیسے لے جایا گیا۔
عالمی فوجداری عدالت کے ایک ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ دونوں فوجی عدالت کی تحویل میں نہیں ہیں۔ ترجمان فادی آل عبدللہ نے بتایا ’نہیں۔ یہ رپورٹس غلط ہیں۔ یہ دونوں آئی سی سی کی تحویل میں نہیں ہیں۔‘
کنیڈا کے ایک وکیل پیام اکہاون، جو کہ آئی سی سی میں بنگلہ دیش کی جانب سے میانمار کے خلاف درج ایک مقدمے میں بنگلہ دیش کی نمائندگی کر رہے ہیں، کا کہنا تھا کہ دونوں فوجی 2017 میں بنگلہ دیش کے بارڈر پوسٹ پر آکر حکومت سے تحفظ کی درخواست کی تھی اور قتل اور ریپ کے جرائم کا اعتراف کیا تھا۔
’اس وقت میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ دونوں افراد اب بنگلہ دیش میں نہیں ہیں۔‘
اراکان آرمی کے ایک ترجمان کے مطابق دونوں میانمار کی فوج سے بھاگے ہوئے تھے اور دونوں کو بطور جنگی قیدی نہیں رکھا گیا تھا۔ تاہم ترجمان نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا کہ اب وہ کہاں ہیں؟
عالمی فوجداری عدالت میانمار کی فوج کی جانب سے مبینہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم، روہنگیا کو زبردسی بنگلہ دیش بھیجنے اور دوسرے غیر انسانی اقدامات کی تحقیقات کر رہا ہے۔
میانمار کو عالمی عدالت انصاف میں بھی روہنگیا کی نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے۔