غیرملکی کمپنیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ میانمار کی فوج سے ہر طرح کے تعلقات منقطع کر دیں۔ فوٹو: اے ایف پی
میانمار میں اگست 2017 میں ہونے والی نسل کشی کے دوران یوں تو سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لے لی تھی لیکن پیر کو اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے کہا ہے کہ چھ لاکھ روہنگیا مسلمان اب بھی میانمار میں موجود ہیں جن کی جان کو خطرہ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ جو روہنگیا مسلمان میانمار کی فوج کی جانب سے نسل کشی سے بچنے کے لیے میانمار کی ریاست رخائن سے نکل آئے تھے ان کی واپسی ناممکن ہے کیونکہ وہاں اب بھی ان کی جانوں کو خطرہ ہے۔
اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی میانمار کے لیے تعینات کی گئی ٹیم نے میانمار فوج کی جانب سے روہنگیا کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو ’نسل کشی‘ قرار دیا تھا اور میانمار فوج کے سربراہ من اونگ لینگ سمیت اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ سات لاکھ 40 ہزار روہنگیا اپنی کمیونٹی کے قتل اور جنسی زیادتی کے واقعات کی یادیں لے کر میانمار کی ریاست رخائن کے جلتے گاؤں چھوڑ کر بنگلہ دیش پہنچے تھے جہاں انہیں کیمپوں میں پناہ دی گئی۔ ان کیمپوں میں پہلے سے مظالم کا شکار افراد موجود تھے جو اپنی جان بچانے کے لیے نکل آئے تھے۔
تاہم اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق چھ لاکھ روہنگیا اب بھی میانمار کی ریاست رخائن میں مایوس کن حالات میں رہ رہے ہیں۔
رپورٹ، جو کہ منگل کو جنیوا میں پیش کی جائے گی، میں لکھا گیا ہے کہ ’میانمار میں اب بھی نسل کشی کے ارتکاب کرنے والے موجود ہیں اور روہنگیا کو خطرات لاحق ہیں۔‘
رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ میانمار اپنی ’غلط‘ کاریوں سے انکاری ہے اور ثبوتوں کو بھی مٹا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق میانمار حکومت ’روہنگیا کی خالی کی گئی زمینوں پر قبضہ کر کے تعمیرات بھی کروا رہی ہے۔‘
اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میانمار میں روہنگیا بہت برے حالات میں رہ رہے تھے اور اب تک 40 ہزار مکانات کے سٹرکچرز کو تباہ کیا گیا ہے۔
جنگی جرائم
مشن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ میانمار کا معاملہ بین الاقوامی جرائم کی عدالت میں لے جایا جائے یا اس کے لیے ٹریبوبل قائم کیا جائے جیسا کہ روانڈہ اور سابقہ یوگوسلاویا میں نسل کشی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے کیا گیا تھا۔
مشن کے مطابق ان کے پاس ایک رازدارانہ فہرست ہے جس میں 100 ایسے افسران کے نام شامل ہیں جن پر شک سے کہ وہ نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ یہ 100 نام ان چھ اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ ہیں جن کے نام گذشتہ سال اعلان کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں غیرملکی کمپنیوں اور حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ میانمار کی فوج سے ہر طرح کے تعلقات منقطع کر دیں۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ رخائن میں ہر طرح کی سرمایہ کاری بند کردی جائے۔
میانمار فوج کے ترجمان زؤ من تن نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو ’یک طرفہ‘ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یک طرفہ الزامات لگانا کے بجائے، انہیں وہاں جا کر دیکھنا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے۔‘