پاکستان چائے در آمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور یہاں ہر گھر میں دن میں کئی مرتبہ چائے پینا اب ایک ضرورت بن گئی ہے۔
مہمان آئیں تو بھلے انہیں جوس اور میٹھا شربت پلائیں لیکن سنیکس کے ساتھ چائے پلائے بغیر تواضع مکمل نہیں ہوتی۔ چائے پاکستانیوں کے خون میں اتنی رچ بس گئی ہے کہ اگر کچھ گھنٹوں بعد اس کی چند چسکیاں نہ لی جائیں تو کام نہیں ہوتا یا سر اور جسم کے دوسرے حصوں میں درد کی کیفیت جنم لینا شروع کر دیتی ہے۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں سالانہ 60 سے 70 میٹرک ٹن چائے درآمد کی جاتی ہے اور ہر فرد سال میں تقریبا ایک سے ڈیڑھ کلو چائے استعمال کرتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
لیموں ذائقے میں اچھا، صحت کے لیے مُفیدNode ID: 500686
-
’مضر صحت غذا بڑھتی عمر کا سبب‘Node ID: 502291
-
انرجی کا پاور ہاؤس کیلے کھانے کے پانچ فوائدNode ID: 502531
ماہرین معاشیات کے مطابق پاکستان ہر سال اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ چائے درآمد کرنے پر خرچ کرتا ہے اور اگر پاکستانی چائے پینا کم کر دیں تو اس کی در آمد میں کمی سے قیمتی زر مبادلہ کی بچت ہو سکتی ہے۔
یہ سوچ حکومتی سطح پر بھی کافی سال پہلے پیدا ہو گئی تھی اور ارباب اختیار نے چائے کا درآمدی بل کم کرنے کے لیے پاکستان میں اس کی تجرباتی بنیادوں پر کاشت کرنے کا منصوبہ بنایا۔
پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے 1986 میں چائے کی کاشت کے لیے موزوں علاقے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں شنکیاری کے مقام پر 50 ایکڑ اراضی پر نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کارپس اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (این ٹی ایچ آر ٓائی) قائم کیا۔
اس وقت اس ادارے میں 20 ایکڑ زمین پر کاشت سے سالانہ پانچ سے آٹھ ٹن تک چائے تیار کی جارہی ہے۔
نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کارپس اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق ’چائے کی کاشتکاری ایک مشکل اور طویل عمل ضرور ہے لیکن اس سے تین نسلیں روزگار کما سکتی ہیں۔'

انہوں نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ چائے کے پودے سے ایک سو سال سے زائد تک منافع کمایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق ’اگر پاکستان میں 64 ہزار ایکٹر اراضی پر چائے کاشت کی جائے تو ملک میں چائے کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔'
چائے کی کاشت کن علاقوں میں ممکن ہے؟
ڈاکٹر عبد الوحید کہتے ہیں کہ چائے کی کاشت کے لیے وہ علاقہ موزوں ہے جہاں سالانہ ایک ہزار ملی میٹر یا اس سے زائد بارشیں ہوں، زمین ڈھلوان اور مٹی میں تیزابیت موجود ہو۔
اان کے بقول 'پاکستان میں 60 سے 70 ہزار ایکٹر اراضی چائے کی کاشت کے لیے موذوں ہیں۔ جس میں 60 فیصد علاقہ ضلع مانسہرہ کا ہے، جبکہ 20 فیصد سوات، باقی ضلع بٹگرام، ایبٹ آباد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا کچھ علاقہ ہے۔'
ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق اس وقت پاکستان کے پاس 20 ٹن تک چائے تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے تاہم محدود وسائل کی وجہ سے صرف آٹھ ٹن تک چائے تیار ہوتی ہے۔
چائے بنتی کیسے ہے؟
چائے تیار کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کا بیج نرسری میں لگایا جاتا ہے۔ پودا تیار ہونے کے بعد اس کی باقاعدہ کاشت کی جاتی ہے۔ ہر پودا پانچ سے چھ سال بعد پیداوار دینا شروع کر دیتا ہے۔

چائے کے پتوں کے تیار ہو جانے کے بعد ان کو پودوں کے اوپر سے ہاتھ اور مشین سے چنا جاتا ہے۔ چائے چنے جانے کے بعد 12 گھنٹے تک اس کو ایلومونیوم پر سوکھنے کے لیے رکھا جاتا ہے اسکے بعد اسے پلانٹ میں ڈالا جاتا ہے جہاں چائے کی پتی کو پکانے کا عمل 7 سے 8 گھنٹے جاری رہتا ہے۔ پتوں کے آٹھ گھنٹے کے بعد کالی پتی چائے بنانے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔
گرین ٹی کی تیاری
سبز چائے میں پکانے کا عمل نہیں ہوتا، سبز چائے کو تیار کرنے کے لیے پتوں کو پلانٹ پر رکھا جاتا ہے جس کے بعد پتوں کو ڈی آکسیڈائز کرنے کے لیے سٹیمرز میں رکھا جاتا ہے جس سے چائے کی خوشبو اور زائقہ محفوظ ہوجاتا ہے، اس کے بعد پتوں کی رولنگ کا مرحلہ شروع ہوتا اور اس کے بعد چائے کے پتوں کو مشین کے زریعے خشک کیا جاتا ہے۔
قومی تحقیقی کونسل برائے اور چائے اور دیگر فصلات مانسہرہ میں چائے کی چین کی 9 اقسام کی چائے کاشت کی جارہی ہیں ان میں 'پی نائین، پی فائیو، کلون، سکیمن، ہاؤشنگ، جوکنگ اور چوئی شامل ہیں۔'
چائے کی کاشت پر کاشتکاروں کے تحفظات؟
ضلع مانسہرہ چائے کی کاشت کے لیے موزوں علاقہ تو ضرور ہے لیکن مقامی کاشتکاروں کے چائے کی کاشت پر کچھ تحفظات بھی ہیں۔
مقامی طور پر یہاں زیادہ تر سبزیاں، پھل اور گندم کاشت کی جاتی ہے جس کی وجہ فوری آمدن ملنا بتایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبد الوحید کہتے ہیں کہ ’مقامی کاشتکاروں کو کمرشل سطح پر چائے کاشت کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ کاشتکار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو بھی فضل کاشت کریں چھ مہینے یا سال میں اس کی آمدن مل جائے لیکن چائے کی پیدوار شروع ہونے میں پانچ سے چھ سال لگتے ہیں۔'
