انڈیا کی ریاست اُترپردیش میں دریائے گنگا کے شمال میں 27 کلومیٹر کے فاصلے پر بدایوں نام کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ اس شہر کی اُردو ادب کے لیے خدمات کسی طور پر امروہہ یا ملیح آباد سے کم نہیں۔ اُردو زبان کی بے مثل خاتون شاعرہ ادا جعفری اور افسانہ نگار عصمت چغتائی کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا مگر اُردو شاعری میں ایک نمایاں نام شکیل احمد کا بھی ہے جو اسی شہر کی نسبت سے شکیل بدایونی کے نام سے معروف ہوئے۔
اُن کے والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی بمبئی (ممبئی) کی ایک مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے مگر تنگ نظر نہیں تھے۔ اس کی وجہ غالباً گنگا جمنی تہذیب بھی تھی تو وہ یہ چاہتے تھے کہ اُن کے صاحب زادے زندگی میں کامیاب ہوں، آگے بڑھیں اور دنیا بھر میں جانے جائیں۔ چناںچہ ہر باپ کی طرح انہوں نے بھی اپنے اس خواب کو پورا کرنے کی ٹھان لی اور شکیل کو عربی، اردو، فارسی اور ہندی کی تعلیم دی۔ شکیل کے ایک دور کے رشتے دار ضیا القادری بدایونی مذہبی نوعیت کی شاعری کیا کرتے تھے چناںچہ شکیل اُن سے متاثر ہوئے اور دوسرا شہر کے ادبی ماحول نے اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیں
-
شامی شاعر کا دمشق کے نام ’بیت حُدد‘ دل کو چھونے والا ناولNode ID: 879728
-
’اور ملال بھی نہیں‘، جون ایلیا، ایک ’لااُبالی‘ مگر ’فلسفی‘ شاعرNode ID: 881402
اُن دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پوری ریاست میں علمی، تخلیقی اور تحقیقی سرگرمیوں کی وجہ سے جانی جاتی تھی۔ بدایوں سے علی گڑھ کا فاصلہ بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ دو ڈھائی گھنٹے کی مسافت ہوگی تو اعلیٰ تعلیم کے لیے سال 1936 میں شکیل کا داخلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کروا دیا گیا۔ وہ اُس وقت 20 برس کے تھے مگر بہت پہلے سے شعر کہنے لگے تھے۔ یونیورسٹی میں داخل ہونے کے بعد اُن کے اس شوق کو مزید مہمیز ملی اور وہ انٹرکالج مشاعروں میں حصہ لینے لگے۔
یہ وہ دور تھے جب انقلابِ روس کے بعد سیاست سمیت ہر شعبہ میں نمایاں نظریاتی فکر کا اظہار کیا جا رہا تھا مگر شکیل نے خود کو لایعنی نظریاتی مباحث سے دور رکھا اور محبت کے موضوع پر شعر کہتے رہے۔
فلم فیئر میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق 30 کی دہائی میں نوجوان شکیل علی گڑھ یونیورسٹی میں زیرِ مطالعہ رہے جہاں اُن کی ملاقات شعرا نیرج اور جگر مراد آبادی سے ہوئی جن کا شکیل کے شاعرانہ اسلوب پر گہرا اثر ہوا۔
یہ وہ دور تھا جب نوجوان شکیل مشاعرے لوٹ لیا کرتے تھے مگر چار برس بعد جب اُن کی تعلیم مکمل ہوئی تو ان کی دور کی رشتے دار سلمیٰ سے شادی کرا دی گئی جو ان کے خاندان کے ساتھ ہی رہتی تھیں مگر اُس وقت چوںکہ پردے کا رواج تھا تو دونوں ایک دوسرے کے لیے ایک طرح سے اجنبی ہی تھے۔
شکیل کا مزاج تو شاعرانہ تھا مگر ملازمت کرنا بھی ضروری تھا تو وہ دہلی منتقل ہو گئے جہاں اُن کو ایک سرکاری محکمے میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ دلِ بے چین کو مگر قرار کہاں تھا، سال 1946 (یا 1944) میں خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے ممبئی کی مہانگری کا رُخ کیا۔
یہ اُن کی خوش قسمتی کہہ لیجیے کہ اُن کو جلد ہی اُن کے فن کے قدرشناس مل گئے۔ فلم فیئر میگزین لکھتا ہے کہ ’شکیل کی عظیم موسیقار نوشاد سے پہلی بار 1946 میں ایک مشاعرے میں ملاقات ہوئی۔ نوشاد نے شکیل سے کہا کہ وہ اپنی مہارت ایک شعر میں دکھائیں۔ شکیل نے جواب دیا:
ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے
ہر دل میں محبت کی ایک آگ لگا دیں گے
یہ مکالمہ دونوں کے درمیان ایک طویل فنی سفر کی بنیاد بنا، جو دو دہائیوں اور 22 فلموں پر محیط رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شکیل گایا اور نوشاد شاعری کیا کرتے تھے، جو موسیقی کے ان دو بڑے ناموں کے درمیان گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
شکیل نے نوشاد کے لیے (اے آر) کاردار کی فلم ’درد‘ (1947) کے نغمے لکھے جو غیرمعمولی طور پر مقبول ہوئے جن میں اُوما دیوی (جو بعد میں ٹن ٹن کے نام سے مشہور ہوئیں) کا گایا ہوا گیت ’افسانہ لکھ رہی ہوں‘ نمایاں ہے۔ ان دونوں کے یادگار گیتوں میں ’دلاری‘ (1949)، ’بابُل‘ (1950)، ’دیدار‘ (1951)، ’بیجو باورا‘ (1952)، ’امر‘ (1954)، ’مدر انڈیا‘ (1957)، ’مغلِ اعظم‘ (1960)، ’کوہِ نور‘ (1960)، ’گنگا جمنا‘ (1961)، ’میرے محبوب‘ (1963)، ’لیڈر‘ (1964) اور ’دل دیا درد لیا‘ (1966) جیسی فلموں کے گیت شامل ہیں۔

شکیل کی زبان پر مہارت ایسی تھی کہ وہ مختلف لہجوں میں آسانی سے منتقل ہو جاتے تھے۔ انتہائی رومانی نغمہ ’سہانی رات ڈھل چکی‘ (دلاری) ہو، یا ’میرے محبوب‘ (میرے محبوب) کا بلند آہنگ انداز، نوشاد اور شکیل نے محبت کی لطافت اور نرمی کو نغمگی کے ساتھ خوبصورتی سے خراجِ تحسین پیش کیا۔
شکیل نے صرف محبت ہی نہیں، بلکہ درد کو بھی بے مثال انداز میں پیش کیا۔ فلم ’امر‘ کا گیت ’نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے‘ اس قدر پُراثر تھا کہ مشہور شاعر ساحر لدھیانویؔ نے شکیل کو ہندی سنیما کا بہترین غزل نگار قرار دے ڈالا۔‘
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فلم’مغلِ اعظم‘ کی موسیقی راگوں اور رومانویت کا ایک شاندار امتزاج تھی۔ اس کا شہرۂ آفاق گیت ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ ہو یا بھجن ’موہے پنگھٹ پہ‘، قوالی ہو ’تیری محفل میں قسمت آزما کے‘ یا روحانی طور پر سرشار کر دینے والا کلام ’بے کس پہ کرم کیجیے‘، یا پھر کلاسیکی انداز میں گائے گئے گیت ’پریم جوگن بن کے‘ اور ’شبھ دن آیا‘ (جنہیں بڑے غلام علی خان نے اپنی آواز مستعار دی)، یہ تمام مختلف اصناف میں تھے مگر شکیل نے اپنے قلم سے ایسا جادو جگایا کہ یہ گیت آج بھی سامعین کی سماعتوں میں رَس گھولتے ہیں۔ چناں چہ ناقدین کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ مغلِ اعظم آج بھی نوشاد اور شکیل کے تخلیقی سفر کا شاہکار ہے۔
نوشاد اور شکیل کے کامیاب تخلیقی سفر کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ شکیل جب تک زندہ رہے، نوشاد نے شاذ ہی کسی دوسرے شاعر کی خدمات حاصل کیں۔ فلم فیئر میگزین کے لیے فرحانہ فاروق اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ’ساٹھ کی دہائی کے اوآخر میں شکیل تپ دق (ٹی بی) جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گئے اور ایک سینی ٹوریم میں داخل کر وا دیے گئے۔ نوشاد نے اُن کے پست ہوتے ہوئے حوصلے اور مالی حالات کو سہارا دینے کے لیے تین فلموں ’رام اور شیام‘ (1967)،’ آدمی‘ (1968)، اور ’سنگھرش‘ (1968) میں کام دلایا۔ کہا جاتا ہے کہ ان فلموں کے لیے شکیل کو ان کی معمول کی فیس سے دس گنا زیادہ معاوضہ ادا کیا گیا۔‘
شکیل نے نوشاد کے علاوہ بھی اپنے عہد کے بہت سے اہم موسیقاروں کے ساتھ کام کیا جن میں ایک نام موسیقار روی کا ہے جن کے لیے شکیل نے 15 فلموں کے گیت لکھے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے خوش قسمت ثابت ہوئے کیوں کہ روی کو ہدایت کار اور اداکار گرو دَت کی سال 1960 میں ریلیز ہوئی فلم ’چودھویں کا چاند‘ کے ذریعے بڑی کامیابی ملی جب کہ شکیل کو بہترین نغمہ نگار کا اولین فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
سال 1961 میں ریلیز ہوئی فلم ’گھرانہ‘ میں یہ جوڑی ایک بار پھر جادو جگانے میں کامیاب رہی۔ روی کو بہترین موسیقار کا اولین فلم فیئر ایوارڈ ملا تو شکیل کو گیت
’حسن والے تیرا جواب نہیں
کوئی تجھ سا نہیں ہزاروں میں
حسن والے تیرا جواب نہیں‘ پر بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
ان دونوں کے دیگر مقبول گیتوں میں فلم ’گھونگھٹ‘ کا گیت ’موری چھم چھم باجے پائلیا‘ اور فلم ’دو بدن‘ کا گیت ’لو آ گئی اُن کی یاد‘ شامل ہیں۔

نوشاد اور روی کے بعد یہ موسیقار ہیمنت کمار تھے جن کی موسیقی اور شکیل کی شاعری نے زبردست جادو جگایا جس کی ایک مثال ایور گرین گیت
’کہیں دیپ جلے کہیں دل
ذرا دیکھ لے آکر پروانے
تیری کون سی ہے منزل‘
ہے جسے لتا جی نے گایا تھا۔ اس گیت پر شکیل کو ایک بار پھر بہترین گیت نگار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا اور یوں وہ بالی وڈ کے واحد ایسے گیت نگار بن گئے جنہیں مسلسل تین برس تک بہترین گیت نگار کا ایوارڈ حاصل ہوا۔ یہ ریکارڈ آج بھی اُن کے نام ہی ہے۔
شکیل نے ایس ڈی برمن، سی رام چندر اور روشن جیسے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا۔ یہ اُن کی فنی عظمت کا اعتراف ہی ہے کہ شکیل کو انڈین حکومت نے ’گیت کارِ اعظم‘ کا خطاب دیا جب کہ اُن کے ہم عصروں میں شیلندر، حسرت جے پوری، کیفی اعظمی، ساحرلدھیانوی اور مجروح سلطان پوری جیسے بڑے شاعر تھے جو کسی نہ کسی طور پر اپنی شاعری میں اپنے نظریات کا اظہار بھی کرتے رہے مگر جیسا کہ ذکر ہوا شکیل نے خود کو کسی نظریے سے وابستہ کیے بنا اپنی منفرد پہچان بنائی۔ یہی وجہ تھی کہ بے مثل شاعر جگرمراد آبادی نے ان کو ’شاعرِ فطرت‘ قرار دیا تھا کیوں کہ ان کے خیال میں ان کی شاعری الفاظ کا کھیل نہیں بل کہ ان کی شخصیت کا ایک فطری اظہار تھی جس کا ذکر شکیل نے اپنے اشعار میں خود کچھ یوں کیا ہے،
’میں شکیل دل کا ہوں ترجماں
کہ محبتوں کا ہوں رازداں
مجھے فخر ہے مری شاعری
مری زندگی سے جدا نہیں‘
شکیل نے غزلیں بھی لکھیں جن میں موجود درد اور ان کی فنی گہرائی کے باعث وہ اپنے عہد کے غزل گانے والے گلوکاروں میں غیرمعمولی طور پر مقبول ہو گئے جن میں بیگم اختر اور طلعت محمود جیسے بڑے نام شامل ہیں۔بیگم اختر تو ہر محفل اور ٹی وی پروگرام میں شکیل کی غزلیں گایا کرتی تھیں، جن میں ’میرے ہم نفس، میرے ہم نوا‘ اور ’اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا‘ شامل ہیں۔ طلعت محمود کی پسندیدہ غزلوں میں ’ہنگامۂ غم‘ اور ’غمِ عاشقی سے کہہ دو‘ شامل تھیں۔ شکیل کی عزلیں موجودہ عہد کے گلوکار بھی گاتے ہیں جن میں پنکج ادھاس بھی شامل ہیں۔
انڈین ڈیجیٹیل نیوز پلیٹ فارم ’دی پرنٹ‘ اپنے ایک مضمون میں یہ لکھتا ہے کہ ’رومانی محبت کا تصور ہندی فلمی صنعت کی بنیادوں میں شامل ہے اور اس کی بڑی وجہ موسیقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیت نگاروں کو زیادہ سراہا جانا چاہیے کیوں کہ انہوں نے موسیقی کو ایسے الفاظ دیے جو نسل در نسل لوگوں کے دلوں پر اثرانداز ہوئے، چاہے انہوں نے فلمیں دیکھیں یا نہ دیکھیں۔‘

’دی پرنٹ‘ کے مطابق بہت سے گیت نگار اگرچہ ایسے گیت لکھ سکتے ہیں جو مقبول ہو جائیں، مگر صرف چند ہی ایسے ہوتے ہیں جنہیں ان کی شاعری کی وجہ سے یاد رکھا جائے۔ ان گیت نگاروں میں ایک نام شکیل بدایونی کا ہے جنہیں بالی وڈ کا اولین رومانی شاعر سمجھا جاتا ہے۔
ساحر لدھیانوی کی شہرۂ آفاق نظم ’تاج محل‘ شاید ہی اردو ادب کے کسی قاری نے نہ سنی ہو جس کا یہ شعر تو ہر خاص و عام میں مقبول ہے،
’اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‘
شکیل بدایونی نے بھی ’تاج محل‘ کے عنوان سے نظم لکھی جس کے چند اشعار سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اُن کے دنیا کو دیکھنے اور محبت کے جذبے کے حوالے سے احساسات کیا تھے،
’اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اس کے سائے میں سدا پیار کے چرچے ہوں گے
ختم جو ہو نہ سکے گی وہ کہانی دی ہے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل‘
یہ کہنا غلط ہو گا کہ شکیل نے صرف رومانی شاعری ہی کی بلکہ انہوں نے مختلف تجربات بھی کیے۔ ان کے تخلیق کیے گئے بھجن ایور گرین کا درجہ پا چکے ہیں جن ’من تڑپت ہری درشن کو آج‘ (بیجو باورا)، ’انصاف کا مندر ہے یہ‘ (امر) یا ’مدھوبن میں رادھیکا ناچے رے‘ (کوہِ نور)، ’موہن کی مرلیہ باجے‘ (میلہ) یا ’موہے پنگھٹ پہ‘ (مغلِ اعظم) نمایاں ہیں۔ یہ سب بھجن رادھا کرشن کی کہانیوں سے متاثر ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شکیل اپنی شاعری کو ہر دھن اور ہر موقع کے مطابق ڈھال سکتے تھے اور زبانوں کی چاشنی کا بھرپور استعمال کرنا جانتے تھے۔
یہ تو یوں ہی بات سے بات نکل آئی، ذکر شکیل کی گیت نگاری کا ہو رہا تھا تو ان کا ہر گیت ہی بے مثل ہے جس کے باعث اُن کے بہترین گیتوں کی درجہ بندی کرنا مشکل ہے جیسے کہ اُن کی اولین فلم ’درد‘ کا گیت
’افسانہ لکھ رہی ہوں
دلِ بے قرار کا
آنکھوں میں رنگ بھر کے
تیرے انتظار کا‘
کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ فلم ’مغلِ اعظم‘ کا تو ہر گیت اور خاص طور پر ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ کے ذکر کے بنا ہندی فلمی سنگیت کے سنہرے عہد کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔
آنجہانی گیت نگار آنند بخشی اپنے بارے میں کہا کرتے تھے کہ وہ شاعر نہیں بل کہ گیت نگار ہیں۔ شکیل ایک اعلیٰ پایے کے شاعر بھی تھے اور گیت نگار بھی۔ شکیل کے غیر فلمی شعری مجموعوں میں رنگینیاں، رعنائیاں اور شبستاں شامل ہیں۔ انہوں نے عقیدت بھری شاعری کا ایک مجموعہ ’نغمۂ فردوس‘ کے نام سے بھی شائع کیا۔
شکیل کی شاعری میں اگرچہ محبت اور جدائی کی جھلک دکھائی دیتی ہے مگر حقیقی زندگی میں وہ ایک زندہ دل انسان تھے۔ انہیں بیڈمنٹن کھیلنے، سیر و تفریح اور خاص طور پر شکار پر جانے اور دوستوں نوشاد، رفیع اور جانی واکر کے ساتھ پتنگ بازی کرنے کا غیرمعمولی شوق تھا۔ دلیپ کمار اور مصنف وجاہت مرزا بھی ان کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔
یہ بے مثل شاعر آج ہی کے روز 20 اپریل 1970 کو محض 53 برس کی عمر میں ذیابیطیس کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث چل بسا۔ یہ ایک ایسے شاعر کی موت تھی جو زندگی بھر محبت کے نغمے لکھتا رہا اور وہ ہندی سنگیت کے اُس عہد کی روایت کا اہم ترین حوالہ ہیں جب گیت نگاروں سے گیت لکھوانے کے لیے اُن کے گھروں کے باہر پروڈیوسرز قطاروں میں کھڑے ہوا کرتے تھے اور فلم بین اِن گیتوں کو سماعت کرنے کے لیے سنیما گھروں کا رُخ کیا کرتے تھے۔
زندگی شاید اسی کا نام ہے۔ شکیل بدایونی کے آبائی شہر میں موجود اُن کے نام سے منسوب لائبریری شکست و ریخت کا شکار ہے مگر ان کے گیتوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے کیوں کہ ان میں محبت کی وہ چاشنی ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں۔