Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین فوج کا ’بے گناہ کشمیری شہریوں کی ہلاکت کا اعتراف‘

فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈین آرمی نے کہا ہے کہا کہ اس کے اہلکاروں نے رواں سال جولائی میں ہونے والے ایک مبینہ جعلی مقابلے کے دوران اپنے اختیارات سے تجاوز کیا جس میں تین کشمیری شہری مارے گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انڈین آرمی کی طرف سے انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں مقابلوں کے دوران غلطی کا اعتراف بہت ہی کم سامنے آتا ہے۔
انڈیا کی مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیر میں تعینات فوجیوں پر ہنگامی اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔
ایجنسی کے مطابق مقابلے میں مارے گئے تینوں افراد آپس میں کزنز تھے اور انڈین آرمی نے انہیں ’پاکستانی دہشت گرد‘ قرار دے کر رواں سال جولائی 18 کو ایک آپریشن کے دوران مار دیا تھا اور انھیں لائن آف کنٹرول کے ساتھ ویران علاقے میں دفنایا گیا تھا۔
لیکن ان کے خاندانوں نے فوج کے دعوے کو مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ مقامی مزدرو تھے۔
اس واقعے پر کشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور رہائشیوں نے اس حوالے سے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
جمعے کو فوج کے ایک ترجمان راجیش کالیا نے کہا کہ’ آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور ذمہ داروں کے خلاف انضباطی کارروائی شروع کی جائے گی۔‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس کی جانب سے جاری تفتیش میں ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ مارے گئے تینوں افراد دہشت گردی اور اس سے متعلق کسی سرگرمی میں ملوث تھے۔‘
عموماً ایسے آپریشن کے دوران پولیس فوج کے ساتھ ہوتی ہے لیکن مذکورہ آپریشن کے دوران پولیس موجود نہیں تھی۔

عموماً فوجی آپریشن کے دوران پولیس فوج کے ساتھ ہوتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ ڈی این اے کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ مقتولین مقامی تھے۔
جولائی میں ہونے والے جعلی مقابلے سے کشمیر  بھر میں ہونے والے اس جیسے واقعات کی یادیں تازہ ہوئی تھی۔ کشمیر میں تین دہائیوں سے جاری مسلح بغاوت کے دوران لاکھوں افراد زیادہ تر عام شہری مارے جا چکے ہیں۔
2010 میں تین انڈین آرمی کے تین آفیسرز پر تین کشمیری مزدوروں کو پاکستانی درانداز قرار دے کر قتل کا جرم ثابت ہوا تھا۔
اس قتل کے خلاف مہنیوں تک احتجاجی مظاہرے جاری رہے تھے جس کے دوران 100 سے زائد سویلین مارے گئے تھے۔

شیئر: