پاکستان میں ایک پاؤ سے وزنی ڈرون کے لیے لائسنس لازمی
پاکستان میں ایک پاؤ سے وزنی ڈرون کے لیے لائسنس لازمی
جمعرات 24 ستمبر 2020 5:50
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
حکام کے مطابق نئی ڈرون پالیسی کے تحت خود کار ڈرونز کے وزن اور ساخت کے لحاظ سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی حکومت اگلے ہفتے چھوٹے خودکار ڈرونز کے حوالے سے نئی پالیسی کو حتمی شکل دے رہی ہے جس کے تحت 250 گرام (ایک پاؤ) سے زیادہ وزنی ڈرون رکھنے والے افراد کو اسے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ساتھ رجسٹر کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان میں ڈرون کیمرہ کے استعمال کو تو دیکھا جا رہا تھا اور شوقین افراد اسے پارکوں وغیرہ میں اڑاتے بھی نظر آتے ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی قوانین موجود نہیں تھے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سول ایوی ایشن کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بتایا کہ اس حوالے سے نئی پالیسی تیار کر لی گئی ہے اور 28 ستمبر کو وفاقی وزیر شہری ہوا بازی غلام سرور خان سٹیک ہولڈرز کی رائے اور تجزیوں کے ساتھ اسے حتمی شکل دیں گے۔ اجلاس میں دیگر متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریز بھی شریک ہوں گے۔
اس سے قبل ڈرون پالیسی کا مسودہ مختلف وزارتوں کو تین ستمبر کو بھیجا گیا تھا۔
پالیسی بنانے کا مقصد آنے والے وقت میں ڈرونز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث قومی سلامتی اور تحفظ کے حوالے سے ان کے استعمال کے لیے رہنما اصول وضع کرنا ہے۔
نئی ڈرون پالیسی میں کیا ہے
وزارت شہری ہوا بازی کے ترجمان عبدالستار کھوکھر نے اردو نیوز کو بتایا کہ نئی ڈرون پالیسی کے تحت خود کار ڈرونز کے وزن اور ساخت کے لحاظ سے درجہ بندی کی گئی ہے اور ان کے لحاظ سے قواعد وضوابط ترتیب دیے جا رہے ہیں۔
اڑھائی سو گرام سے کم وزن کی کیٹگری میں موجود تمام ڈرونز کو کسی قسم کی روک ٹوک سے پاک رکھا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اس وزن میں زیادہ تر بچوں کے کھلونے ڈرونز ہوتے ہیں یا چند چھوٹے کیمرے والے ڈرونز ویڈیو بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
تاہم ترجمان کے مطابق اڑھائی سو گرام سے دو کلو گرام تک کے تمام ڈرونز کو سول ایوی ایشن کے ساتھ رجسٹر کروانا لازم ہو گا اور ان کے حوالے سے ترتیب دیے گئے قواعد پر عمل درآمد بھی کرنا ہوگا۔
دو کلو سے زائد وزن کے ڈرونز کے حوالے سے قوانین اور بھی زیادہ سخت اور پیچیدہ ہوں گے تاکہ ان کا استعمال صرف جائز ضروریات کے لیے کیا جا سکے۔
نئی پالیسی کے تحت ڈرونز کی درآمد اور مقامی پیداوار کی اجازت دی جائے گی تاکہ ان کی سمگلنگ کی روک تھام کی جا سکے۔
اس پالیسی کے تحت ڈرونز کے آپریشن اور تربیت کے حوالے سے بھی قانون بنایا جائے گا۔ ترجمان کے مطابق ڈرونز کو حساس علاقوں میں اڑانے کی اجازت نہیں ہو گی اور ایسی تمام جگہوں پر جہاں کیمرے لے جانے کی اجازت نہیں ہے وہاں بھی اجازت نہیں ہو گی۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈرونز کے کمرشل استعمال کی منزل ابھی خاصی دور ہے۔ ابھی ملک میں زیادہ تر ڈرونز سمگل ہو کر آتے ہیں مگر نئی پالیسی کے تحت اب اس سیکٹر کی نگرانی کی جا ئے گی۔
دیگر ممالک میں ڈرون پر قانون سازی
امریکہ برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ڈرونز کے حوالے سے باقاعدہ ریگولیشن موجود ہے۔ برطانیہ میں سول ایوی ایشن اتھارٹی ہی ڈرونز کے استعمال کو ریگولیٹ کرتی ہے۔ وہاں پر اڑھائی سو گرام سے بیس کلو گرام تک کے ڈرونز اور پائلٹس کی رجسٹریشن ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح قواعد کے تحت برطانیہ میں میڈیا کی ویڈیوز کے لیے استعمال ہونے والے ڈرونز کے پائلٹس کے پاس لائنسس ہونا ضروری ہے۔
امریکہ میں بھی ڈرونز کے کمرشل استعمال اور آن لائن ڈیلیوری کے لیے ڈرون کے استعمال کے باعث فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے ڈرون رجسٹریشن ریگولیشن کا اجرا کیا ہے۔ جس کے تحت 250 گرام سے زائد ڈرونز کے استعمال کو ریگولیٹ کیا گیا ہے۔
امریکی اخبار یو ایس اے ٹو ڈے کے مطابق ڈرونز کا جرائم کے سلسلے میں بھی استعمال دیکھا گیا ہے اور کئی جیلوں میں ڈرونز کے ذریعے اسلحہ اور دیگر اشیا پہنچانے کی شکایات کے بعد اس سلسلے میں قوانین کو سخت کیا گیا ہے۔