ملزم کا کہنا ہے کہ اس نے لوگوں کی مرضی کے بغیر ان کو قتل کیا (فوٹو: اے ایف پی)
جاپان میں ’ٹوئٹر کلر‘ کے نام سے مشہور ایک شخص نے عدالت میں نو افراد کو قتل کرنے کا جرم تسلیم کر لیا ہے۔
تاہم 29 سالہ تاکاہیرو شیریسی کے وکلا کا مطالبہ ہے کہ اس پر لگائے گئے الزامات کم کیے جائیں کیونکہ متاثرین کو خودکشی کے خیالات آتے تھے اور انھوں نے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ملزم پر ریپ کا بھی الزام ہے۔
تکاہیرو شیریشی پر الزام ہے کہ وہ ٹوئٹر کے ذریعے 15 سے 26 سال کی عمر کے افراد سے رابطہ کرتا جو اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں آن لائن پوسٹ کرتے تھے۔
تکاہیرو شیریشی ان سے کہتا کہ وہ ان کی مدد کر سکتا ہے، حتیٰ کہ ان کے ساتھ مر بھی سکتا ہے۔
اگر ملزم پر قتل کا الزام ثابت ہوتا ہے تو سزائے موت ہو سکتی ہے تاہم ان کے وکیل چاہتے ہیں کہ ان پر عائد کیے گئے الزامات کو کم کیا جائے اور اس کو ’رضامندی کے ساتھ قتل‘ کہا جائے جس کے لیے جاپان میں سزا چھ ماہ سے لے کر سات برس تک ہے۔
ایک مقامی اخبار کے ساتھ انٹرویو میں ملزم نے کہا کہ وہ اپنے وکیلوں سے متفق نہیں اور وہ استغاثہ کو کہیں گے کہ متاثرین کو ان کی مرضی کے بغیر قتل کیا گیا۔
ملزم تکاہیرو شیریسی کو تین برس قبل ایک 23 سالہ لڑکی کے غائب ہونے کے بعد پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ لڑکی نے اپنی جان لینے سے متعلق ٹویٹ کی تھی۔
لڑکی کے غائب ہونے کے بعد ان کے بھائی نے بظاہر ٹوئٹر اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کی جس میں ان کو ایک مشکوک ٹوئٹر ہینڈل ملا۔
2017 میں ہالووین کے موقع پر پولیس کو تکاہیرو شیریسی کے گھر سے انسانی اعضا کولرز اور مختلف ڈبوں سے ملے تھے۔
ملزم نے مقامی اخبار کو یہ بھی بتایا کہ اس کو نہیں لگتا تھا کہ وہ پکڑا جائے گا اور اسے اس بات پر فخر تھا کہ وہ اپنے آخری قتل تک پہچانا نہیں گیا۔
سات صنعتی ممالک میں جاپان میں خودکشیوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ جاپان میں ہر سال 20 ہزار افراد اپنی جان لیتے ہیں۔