Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایف اے ٹی ایف کی کتنی شرائط باقی؟

پاکستان  نے رواں سال ہی میں پارلیمنٹ سے پندرہ کے قریب نئے قوانین منظور کرائے ہیں۔ فوٹو: ایف اے ٹی ایف
منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے جمعہ کو پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے فروری 2021 تک 27 نکاتی ایکشن پلان کے چھ بقیہ نکات پر عمل درآمد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 2018 کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے معاملے پر خاصی پیش رفت کی ہے اور اب تک اکیس نکات پر عمل درآمد کردیا تاہم پاکستان کی تمام ڈیڈ لائنز ختم ہو چکی ہیں اسے بقیہ چھ نکات پر آئندہ سال فروری تک عمل درآمد کرنا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ان چھ نکات پر عمل درآمد کے بعد پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل آئے گا جس سے ملک کی بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے مشکلات میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ 

 

کون سے چھ نکات پر عمل درآمد باقی ہے؟ 

ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہ کرنے کی وجہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرتے ہوئے اس کے لیے 27 نکاتی لائحہ عمل تجویز کیا تھا، جس پر عمل کر کے وہ تنطیم کی گرے لسٹ سے باہر آ سکتا ہے۔
اس سال فروری تک پاکستان نے 14 نکات پر عمل کر لیا تھا اور جمعہ کو اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان نے سات مزید نکات پر بھی عمل کر لیا ہے۔
باقی رہ جانے والے چھ نکات میں ایف اے ٹی ایف کے اعلامیے کے مطابق پاکستان کو یہ یقینی بنانا ہے کہ اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کی مالی معاونت کی بڑی سطح پر چھان بین کریں اور اس کی تفتیش یقینی بنائیں۔ اس حوالے سے خاص طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے  دھشت گردی گردی کئ فہرست میں شامل کئے گئے افراد کی تفتیش کریں اور ان کے خلاف مقدمے چلائے جائیں۔ اس کے علاوہ ایسے افراد کے خلاف بھی مقدمے چلائے جائیں کو فہرست میں میں نامزد افراد کے ماتحت انہیں کاروائیوں میں ملوث ہوں۔
ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو کہا گیا ہے کہ دھشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے مقدمہ بازی کے نتیجے میں موثر اور کارآمد پابندیاں لگائی جائیں۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 2018 کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے معاملے پر خاصی پیش رفت کی ہے۔ فوٹو: روئٹرز

یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ایسے اقدامات کر کے دکھانے ہیں کہ مالی پابندیاں موثر طور پر ایسے افراد پر لگیں جو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1267 اور 1373 کے تحت دھشت گرد قرار پائے ہیں اسی طرح ایسے افراد جو انکے ماتحت ایسی کاروائیوں میں ملوث ہوں ان پر بھی سخت مالی پابندیاں لگائی جائیں۔ ایسے افراد کے اوپر پابندی ہو کہ نہ وہ فنڈز اکھٹے کر سکیں نا ٹرانسفر کر سکیں اور نہ ہی وہ کوئی بینک سروس استعمال کر سکیں۔ اسی طرح ان کے تمام اثاثے بھی ضبط کیے جائیں۔
اس کے علاوہ پاکستان کو یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ دہشت گردی کی معاونت کے حوالے سے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں جیسے بینکس وغیرہ کو انتظامی اور دیوانی سزائیں ملیں اور اس سلسلے میں صوبائی اور وفاقی ادارے تعاون کریں۔

کون سے سات نکات پر اس سال عمل ہوا ہے

پاکستان  نے رواں سال ہی میں پارلیمنٹ سے پندرہ کے قریب نئے قوانین منظور کرائے ہیں تاکہ ملک کی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ایف اے ٹی ایف نے اپنے حالیہ اجلاس میں ان کوششوں کا اعتراف کیا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے سربراہ مارکس پلئیر کے مطابق ادارے کی ٹیم جلد پاکستان کا دورہ کرے گی۔ فوٹو: اے ایف پی

ادارے نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ پاکستان نے غیرقانونی طور پر رقم کی منتقلی کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے کرنسی کی آمدورفت پر کنڑول بہتر کیا گیا ہے ۔ دھشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف بین الاقوامی تعاون بہتر بنایا گیا ہے۔انسداد دھشت گردی کے قانون میں مطلوبہ ترمیم کی گئی ہے۔ مالیاتی ادارواں کی طرف سے ٹارگٹڈ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالئ معاونت کے قانون کی خلاف ورزی پر سزائیں دی گئی ہیں اسی طرح اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل افراد کی جانب سے چلائے جانے والے اداروں پر حکومتی کنڑول حاصل کر لیا گیا ہے۔
بقیہ نکات پر عمل درآمد کیوں مشکل ہے؟
وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر نے کہا ہے کہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف کے 21 نکات پر عمل کرلیا ہے جو قابل ستائش ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر ملک میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق معاملات دیکھتے رہے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

ایف اے ٹی ایف کے اعلان کے بعد اپنی ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ بقیہ چھ نکات پر بھی جزوی عمل درآمد کیا گیا ہے۔ تاہم ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وفد کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ بقیہ چھ نکات چونکہ اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل افراد کو سزا دلوانے کے بارے میں ہیں اس لیے حکومت کو اس معاملے پر دو طرفہ چیلنج درپیش ہے۔ نہ صرف ایسا کرنے سے داخلی مزاحمت کا خطرہ ہے بلکہ اس کے بین الاقوامی منفی اثرات کا بھی خدشہ ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے سربراہ مارکس پلئیر نے جمعہ کو پریس کانفرنس میں  کہا تھا کہ ان کے ادارے کی ایک ٹیم جلد پاکستان کا دورہ کرے گی اور پاکستان کی پیش رفت کا جائزہ لے کر اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ ملک کو کب گرے لسٹ سے نکالا جائے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں