سعودی عرب میں عبایہ خواتین کی پہچان بن گیا ہے۔ (فوٹو المرصد)
سعودی فیشن ڈیزائنر نے کورونا سپیشل عبائے تیار کیے ہیں۔ سینیٹائزر کے لیے الگ جیبیں بنائی گئی ہیں ۔
سعودی فیشن ڈیزائنر عبیر المساعد نے کہا ہے کہ خلیجی خواتین کے یہاں عبائے کا تصور یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔ ماضی میں صرف سیاہ کپڑے پر زور دیا جاتا تھا- اب نت نئے ڈیزائن سامنے آرہے ہیں۔
عکاظ اخبار کے مطابق عبیرالمساعد نے کہا کہ حالیہ ایام کے دوران سعودی عرب میں عبایہ مارکیٹ اور شو رومز کے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ سعودی خواتین کے لیے کورونا عبائے بے حد پسند کیے جا رہے ہیں۔ان میں کئی خصوصیات ہیں۔
عبائے میں سینیٹائزر اور ماسک کے لیے جیبوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ عبائے کے کپڑے کا انتخاب اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ وہ گندگی اور مٹی سے محفوظ رہے تاکہ عبائے وائرس سے آلودہ نہ ہوں۔ اس قسم کے عبائے ملازم خواتین، طالبات اور ایسی خواتین میں بڑے مقبول ہورہے ہیں جن کا پبلک مقامات پر آنا جانا لگا رہتا ہے۔
المساعد نے بتایا کہ پہلے بیشتر خواتین ایک یا زیادہ سے دو عبائے استعمال کیا کرتی تھیں لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ 18 برس سے 24 برس کی لڑکیاں چار سے چھ عبائے استعمال کررہی ہیں۔ ایک عبایہ یونیورسٹی کے لیے، دوسرا سیر و تفریح، تیسرا تقریبات اور کئی شادی بیاہ کے لیے مختص ہوتے ہیں۔
سعودی فیشن ڈیزائنر نے بتایا کہ کلیدی عہدوں پر فائز خواتین پانچ سے 8 عبائے خرید رہی ہیں جبکہ اعلی گھرانوں کی خواتین کم از کم دس عبائے خریدنے کا اہتمام کررہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی قریب میں ایک عبائے کی اوسط قیمت 300 تا 500 ریال تک ہوتی تھی۔ اب دس ہزار ریال تک کے عبائے مارکیٹ میں مل رہے ہیں۔ آرائشی اشیا سے عبائے کی قیمت کم یا زیادہ ہوتی ہے۔
سعودی عرب میں عبایہ خواتین کی پہچان بن گیا ہے۔ عبائے سے خاتون کی شخضیت، اس کی سماجی حیثیت اور اور مالی پوزیشن کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔