تحقیق کے مطابق خواتین کا مدافعتی نظام مردوں سے بہتر ہوتا ہے (فوٹو: فری پک)
کورونا متاثرین کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے خواتین کی نسبت مرد زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ نئی تحقیق کے مطابق مردوں کے کورونا سے زیادہ متاثر ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔
امریکہ کی بال سٹیٹ یونیورسٹی نے حال ہی میں ایک تحقیق شائع کی ہے جس کے مطابق مرد اور عورت کے جسم میں کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے والے مدافعتی نظام میں بہت فرق دیکھا گیا ہے۔
اس تحقیق کی نگران اور ماہر مدافعتی نظام پروفیسر اکیکو ایواذاکی کے مطابق مدافعتی نظام میں فرق کی وجہ سے مرد کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق خواتین کا مدافعتی نظام زیادہ مضبوط ہونے کے باعث وہ کورونا سے کم متاثر ہو رہی ہیں۔
اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مریضوں کی جنس کے مطابق نئے علاج دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا خواتین کا مدافعتی نظام مردوں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے؟
نیچر میگزین میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق مردوں میں کورونا وائرس سے اموات کا تناسب 60 فیصد ہے۔
تحقیق میں اس کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ماہرین نے لکھا ہے کہ چنانچہ مردوں کا مدافعتی نظام خواتین سے کمزور ہوتا ہے۔ خواتین کے جسم میں موجود خلیے بیماری کا جلدی مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے کورونا مردوں پر زیادہ طاقت سے حملہ آور ہوتا ہے۔
کورونا وائرس جب مرد کے جسم پر حملہ آور ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کے جسم میں موجود سائٹوکائن پروٹین کو کم کردیتا ہے جبکہ عورتوں کے جسم میں یہ پروٹین جلدی کم نہیں کرسکتا۔
یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ کورونا کی نئی اقسام سائٹوکائن پروٹین کی مقدار کو بہت زیادہ کم یا حد سے بڑھا دیتی ہیں۔ مدافعتی نظام کمزور ہو جانے کی وجہ سے سائٹوکائن پروٹین کی مقدار تبدیل ہوتی ہے۔
اس مطالعے کے مصنفین نے نوٹ کیا کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں ٹی لیمفوسائٹس کا کمزور ردعمل اس بیماری کو بڑھاوا دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، اسی طرح مرد جتنا عمر رسیدہ ہوگا اس کا ردعمل اسی قدر کمزور ہوگا۔
پلازما کونویلیسینٹ کیا ہے؟
دوسری جانب تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایسی خواتین جن میں انفیکشن کے آغاز میں سائٹوکائن کی سطح زیادہ تھی ان کی حالت بعد میں خراب ہوگئی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ان نتائج سے کورونا وائرس کا مختلف علاج دریافت کرنے میں مدد ملے گی۔ پروفیسر ایواذاکی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مردوں میں ٹی لیمفاسیٹوں کی مقدار کو بہتر کرنا ضروری ہے، جبکہ خواتین میں سائٹوکائن کے ردعمل کو روکنا ضروری ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں ایسے افراد سے خون کے پلازما کی منتقلی کی اجازت دی ہے جو کورونا وائرس سے صحتیاب ہو چکے ہیں۔
کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے والے افراد میں وائرس سے لڑنے کے لیے جسم ایسے اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے اور جب اس شخص کے جسم میں انجیکشن لگایا جاتا ہے تو وہ اس بیماری سے بھی صحتیاب ہوسکتا ہے جسے ’کونویلیسینٹ پلازما‘ کہا جاتا ہے۔
اس طریقہ کار کو پہلے 1892 میں ڈپتھیریا سے لڑنے کے لیے آزمایا گیا تھا اور پھر 1918 میں ہسپانوی فلو کے خلاف۔ اس طریقہ کار کے ابتدائی نتائج تو حوصلہ افزا ہیں تاہم کورونا کے علاج میں یہ کس حد تک مفید ہے، اس حوالے سے کچھ۔ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔