ساری دنیا کی طرح پاکستان کی نظریں بھی منگل کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ ان انتخابات کے نتائج سے پاکستان کی سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی پر بھی براہ راست اثرات مرتب ہوں گے۔
نیا امریکی صدر کیا پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہو گا؟ کیا افغانستان میں امن کی بحالی کے عمل میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں برقرار رہیں گی؟ کیا ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں نئی امریکی انتظامیہ معاون ثابت ہو سکتی ہے؟ کیا خطے میں انڈیا کی بالادستی کے لیے امریکی کوششیں جاری رہیں گی؟
ان سارے سوالوں کے جوابات بھی تین نومبر کو ہونے والے امریکی انتخابات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کورونا میری وجہ سے نہیں چین سے آیا: ٹرمپNode ID: 512931
-
’میں نے صدر کے لیے ٹرمپ نامی لڑکے کو ووٹ ڈال دیا ہے‘Node ID: 513276
-
'امریکہ کورونا کی دوسری لہر کے لیے تیار نہیں'Node ID: 514596
اب تک امریکہ میں ہونے والے سرویز یہی بتاتے ہیں کہ ڈیموکریٹک امیدوار جوزف بائیڈن کو ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر واضح برتری حاصل ہے تاہم گذشتہ انتخابات کی طرح سروے رپورٹس اس بار بھی غلط ہو سکتی ہیں اور ٹرمپ ایک بار پھر چھپے رستم ثابت ہو سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کئی حوالوں سے غیر روایتی
ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کی موجودہ حکومت کے اچھے تعلقات جاری ہیں اور ابتدا میں پاکستان کے خلاف انتہائی سخت بیانات دینے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ اب کھل کر افغان امن عمل میں پاکستان کی مثبت کردار کی تعریف کر رہی ہے۔
کافی عرصے سے پاکستان کے خلاف امریکہ سے کوئی سخت بیان نہیں آیا اور ناں ہی ’ڈو مور‘ کی مانوس صدائیں آ رہی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر کی شخصیات میں مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ دونوں غیر روایتی سیاستدان ہیں اور دونوں ہی فوری نوعیت کے مختصرالمعیاد منصوبوں پر زیادہ زور دیتے ہیں۔
جرمن جریدے ’دیر سپیگل‘ کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے اس مماثلت پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اور صدر ٹرمپ کئی حوالوں سے ’غیر روایتی‘ ہیں۔
جہاں ایک طرف صدر ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلا کے لیے غیر روایتی اور تیز تر اقدامات کیے ہیں دوسری طرف جوزف بائیڈن کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ خاصے لمبے غور کرنے کے بعد اس طرح کے فیصلے کرتے ہیں۔ تو کیا ان کے آنے سے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل بھی تعطل کا شکار ہو جائے گا؟

اردو نیوز نے اس حوالے سے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جلیل عباس جیلانی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ امریکی خارجہ پالیسی کے زیادہ تر معاملات اس بات سے متاثر نہیں ہوتے کہ انتخابات میں کون جیتا کیونکہ ان میں دونوں جماعتوں کی حمایت ہوتی ہے تاہم قیادت کا سٹائل ضرور بدل جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن پاکستان کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، یہاں کی سیاسی اور فوجی قیادت سے واقف ہیں اور کئی بار پاکستان کے دورے بھی کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر اوبامہ کے دور میں جب جوزف بائیڈن نائب صدر تھے تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی ڈائیلاگ جاری تھا جس سے تعلقات مضبوط ہوئے تھے اس لیے توقع ہے کہ اگر جوزف بائیڈن جیتے تو پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہتر ہوں گے۔
بائیڈن کی پاکستان سے زیادہ واقفیت مفید ہو گی؟
امریکہ میں کئی سالوں سےمقیم پاکستانی صحافی عظیم ایم میاں جوزف بائیڈن سے پاکستان کے بارے میں متعدد مرتبہ انٹرویوز میں بات کر چکے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے عظیم ایم میاں کا کہنا تھا کہ بائیڈن امریکی سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں اور پاکستان کو ان سے بہتر شاید ہی کوئی امریکی رہنما جانتا ہو۔ اس لیے امید ہے کہ ان کی جیت کی صورت میں تعلقات میں بہتری آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے دور میں بظاہر پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات بہتر ہی رہے تاہم چند دن قبل ہی ٹرمپ انتظامیہ نے انڈیا کے ساتھ معلومات کے تبادلے اور دفاعی تعاون کا جو معاہدہ کیا ہے وہ پاکستان کے لیے خاصا خطرناک ہو سکتا ہے۔ ان کے خیال میں ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران افغانستان میں پاکستان کے اثررسوخ کا فائدہ تو اٹھا لیا ہے تاہم اب اس کا جھکاو انڈیا کی طرف ہے۔ جبکہ جوزف بائیڈن کی اپروچ دونوں ممالک کی طرف متوازن ہونے کی توقع ہے۔
بائیڈن نے متعدد بار مسلمانوں کے لیے ہمدردی اور نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا ہے جبکہ دوسری طرف صدر ٹرمپ کو امریکہ میں موجود انڈین کمیونٹی کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سنیٹر شیری رحمن نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان نے امریکی انتخابات میں کبھی بھی کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دیا نہ ہی اسے دینا چاہیے۔ ہر ریاست کو دوسری ریاست سے معاملات درپیش ہوتے ہیں۔ موجودہ انتخابات میں بھی توقعات کو پاکستان کی ترجیحات اور علاقائی مقاصد کے تناظر میں دیکھنا چاہیے اور امریکی عوام اور حکومت کے ساتھ بہتر اور پائیدار تعلقات استوار کرنے اور بہتر بنانے کی جستجو کرنی چاہیے۔
