مریم نواز اس وقت نواز شریف کے بیانیے کو اپنی تقاریر میں آگے بڑھا رہی ہیں۔ فوٹو: ن لیگ سوشل میڈیا
پاکستان میں سیاست کا موسم ایک بار پھر گرم ہے اور اس کا سہرا پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہلائی جانے والی مسلم لیگ ن کے سر جاتا ہے۔
پارٹی کے تاحیات قائد نواز شریف کا بیانہ عملی طور پر پارٹی کی پالیسی لائن بن چکا ہے اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
دوسری جانب پارٹی کے صدر اور بظاہر مصالحت پسند سمجھے جانے والے شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز نیب کے مقدمات میں جیل میں ہیں۔
اس بات میں اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ ن لیگ میں نظریاتی طور پر دو دھڑے ہیں ایک مصالحت پسند اور دوسرا ٹکراؤ کی سیاست پر یقین رکھنے والا۔ اس بات کی تصدیق مریم نواز کے ایک حالیہ انٹرویو میں ہوئی جس میں انہوں نے اپنی خاموشی کی وجہ شہباز شریف کی دو سال سے جاری ’کوششوں‘ کو قرار دیا۔
اس سیاسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ کیا واقعی مسلم لیگ ن اس وقت اپنے اندر پائے جانے والے دھڑوں کی وجہ سے یکسوئی حاصل نہیں کر پائے گی؟ یا تحریک انصاف کے بقول مریم نواز پارٹی پر مکمل کنٹرول کے لیے دوڑ دھوپ کر رہی ہیں اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ اسی طرح کیا پارٹی میں موجود دھڑے درپردہ آپسی کشمکش میں کس حد تک جتے ہوئے ہیں؟ ایک بات تو طے ہے کہ ان سوالوں کے اصل جوابات کے لیے پارٹی کا کوئی بھی عہدیدار یا راہنما کھل کر آن ریکارڈ بات کرنے کو تیار نہیں۔
پارٹی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو پارٹی کے اندر جاری کشمکش کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ کئی ایسی باتیں بھی بتائیں جس سے مستقبل کا سیاسی خاکہ بھی ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
لیگی رہنما نے بتایا کہ ’پہلے تو ان گروپس کی ساخت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ن لیگ کے چار بڑے رہنماؤں کی شہباز شریف سے دوران حراست ملاقات پر نظر دوڑائیں تو آپ کو واضح ہو جائے گا۔
اس ملاقات میں احسن اقبال، خواجہ آصف، سعد رفیق اور ایاز صادق تھے۔ جنہوں نے برملا سخت بیانیے کے ممکنہ سخت نتائج کے موضوع پر پارٹی کے صدر سے بات چیت کی۔ اور مریم نواز کی حالیہ شہباز شریف کی پیشی پر ملاقات اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ لیگی حلقوں میں ایک ہفتہ قبل یہ خبر گرم تھی کہ مریم اور شہباز کہ ملاقات ہونے جا رہی ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ اگر ن لیگ کا چہرہ سمجھے جانے والے یہ رہنما سخت بیانیے سے کترا رہے ہیں تو پھر سخت بیانیے کے ساتھ کون کھڑا ہے؟ لیگی رہنما نے بتایا ’ایک تو نواز شریف خود ہیں، مریم ہیں، شاہد خاقان عباسی ہیں اسی طرح ایک پروفیسر گروپ مشہور ہے جن میں پرویز رشید، زبیر عمر اور مصدق ملک ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ ہیں جو مکمل طور پر ٹکراؤ کے بیانیے کی حمایت میں ہیں بلکہ پارٹی میٹنگز میں بھی وہ سخت موقف لیتے ہیں۔‘
مریم نواز کے حوالے سے انہوں نے مزید بتایا ’جہاں تک بات ہے کہ مریم پارٹی پر قبضہ کر رہی ہیں یہ ایک محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے۔ آپ بتائیں کہ اس وقت اگر نواز شریف کا بیانہ ہی چلنا ہے تو پوری ن لیگ میں مریم کے علاوہ کون اسے لیڈ کر سکتا ہے؟ اگر آپ کو اور مجھے یہ بات پتہ ہے تو کیا پارٹی قیادت کے علم میں نہیں؟ اور اس جدوجہد میں اگر مریم کو مسقبل میں سیاسی فائدہ ملتا بھی ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘
سیاسی تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
اردو نیوز نے مسلم لیگ ن کے اندر جاری اس کشمکش پر سیاسی تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔ جو اس صورت حال کو دیگر کئی زاویوں سے بھی دیکھتے ہیں۔
سہیل وڑائچ نے بتایا کہ ’مسلم لیگ ن کی پارٹی اب کون چلائے گا یا کیا نواز شریف کے بیانیے کا بوجھ پارٹی برداشت کر سکے گی اس بات کا دارومدار نواز شریف کے ووٹ بنک پر ہے۔ اگر تو اس بیانیے سے نواز کا ووٹ بینک خراب نہیں ہوا تو پارٹی کے دو چار لیڈر ادھر ادھر ہو بھی جائیں تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی آپ دیکھیں تو اس وقت پارٹی کا نمبر ون جیل میں ہے نمبر ٹو بھی جیل میں ہے تو کون ہے جو اس بوجھ کو اٹھائے؟ میرے خیال میں ابھی نواز کے ووٹ بینک کو بھی کوئی خطرہ نہیں اور پارٹی کو بھی۔‘
سہیل وڑائچ یہ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کے طاقت کا مرکز نواز شریف کا ووٹ بینک ہے جس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس بات کا پارٹی لیڈر شپ کو بھی اتنا ہی ادراک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اب کچھ عرصہ تک یہ ایسے ہی چلے گا۔ اور ن لیگ کی وہ لیڈر شپ جو بظاہر اس بیانیے کی شدت کی وجہ سے کھل کر نہیں سامنے آئے گی تب تک خاموش رہے گی جب تک دوبارہ پارلیمانی سیاست کی گیم گرم نہیں ہوتی۔‘
سینیئر براڈ کاسٹر اور کالم نگار فہد حسین مسلم لیگ ن کی سیاسی کشمکش پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ پارٹی بیرونی اور اندرونی دونوں طرف سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ ایک دباؤ وہ ہے جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف کی وجہ سے حکومت اور اداروں کی طرف سے ہے اور دوسرا دباؤ پارٹی کے اندر سے اس لیڈرشپ سے ہے جو بظاہر لڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ لیکن اگر کوئی کہتا ہے کہ اس دباؤ سے پارٹی ٹوٹ سکتی ہے یا ٹوٹ جائے گی تو یہ صورت حال کا درست تجزیہ نہیں ہو سکتا۔ ن لیگ کا رنگ لیڈر نواز شریف ہی ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ دنوں تک مزید بھی ایسی خبریں سننے کو ملیں جیسی کہ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کے پارٹی چھوڑنے سے متعلق تھی کہ دو چار اور لوگوں نے بھی پارٹی چھوڑ دی ہے۔ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اور اس وقت پارٹی میں طاقت کی لڑائی نہیں ہے حکمت عملی پر اختلاف ہے، جو کہ ہمیشہ ہی رہا ہے۔‘
سلمان غنی جو کہ 35 سال سے سیاسی امور رپورٹ کرتے ہیں اور تجزیہ نگار بھی ہیں وہ اس سارے معاملے کو کچھ ایسے دیکھتے ہیں کہ ’پاکستان میں پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے یہ پارٹیاں شخصیت پرستی پر چلتی ہیں۔ آپ تینوں بڑی پارٹیوں کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ایک جیسی صورت حال نظر آئے گی۔ میرے خیال میں لیگ جب سے وجود میں آئی ہے یہ اپنے دوسرے سخت ترین وقت سے گزر رہی ہے۔ ایک 1999 کے بعد جب ق لیگ بنی اور ایک اب۔'
’لیکن اب کی بار اس کو فائدہ یہ ہے کہ حکومت عدم کارکردگی کے باعث عوامی مقبولیت کھو چکی ہے اس لیے بھی ن لیگ کے اندر دراڑیں ڈالنا ایک مشکل معاملہ ہے۔ یہ ایک نفسیاتی لڑائی ہے جس میں ن لیگ کی نچلے درجے کی لیڈر شپ کو بھی پتا ہے کہ کل کو نواز شریف کا نام لگا ہو گا تو حلقے میں جیت کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ مطلب یہ کہ پارٹیوں کے لوگ دور کا سوچتے ہیں۔ انہیں کم از کم اس بات کا تو یقین ہے کہ تحریک انصاف اس کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ الیکشن سے اقتدار میں نہیں آ سکتی تو وہ پارٹی کو کیسے چھوڑیں گے؟ دوسرا مریم نواز نے بھی اگر کوئی مقام بنایا ہے تو وہ بھی ان کی اپنی شخصیت ہے۔ جیسے نواز شریف لوگوں کو گھروں سے باہر لیتے تھے اب یہ کام ان کی بیٹی کر رہی ہیں۔‘
سلمان غنی کہتے ہیں کہ وہ اندرونی اختلاف کو ایک حکمت عملی سے زیادہ جگہ نہیں دیتے۔ ’دیکھیں آج ن لیگ لڑائی کے موڈ میں ہے تو جو لڑائی کا ذہن رکھتے ہیں وہی ایک دوسرے کے قریب ہوں گے نا؟ کل کو جب پارلیمانی سیاست کی بات ہو گی تو پھر اس کے ماہرین میں شہباز شریف سے زیادہ کون ہے ن لیگ میں؟ تو یہ ایسے ہی ہے کہ ن لیگ کے پاس مصالحت اور لڑائی دونوں کی الگ الگ سے ٹیمیں ہیں۔‘