پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں 15 نومبر کو قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان انتخابات کے بعد گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔
گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کے لیے ملکی آئین میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم کی جائے گی۔ جس کے نتیجے میں سینیٹ، قومی اسمبلی کے علاوہ پاکستان کے آئینی اداروں میں بھی نمائندگی ملے گی۔
مزید پڑھیں
-
لاک ڈاؤن سے گلگت بلتستان کے ہزاروں شہری کراچی میں محصُورNode ID: 472366
-
گلگت بلتستان کی تقدیر بدلنے جا رہی ہے؟Node ID: 506846
-
زمین کی خریداری کا نیا قانون ، کشمیریوں کے لیے خطرے کی گھنٹیNode ID: 514226
گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا تعلق محض وزیر اعظم کے حالیہ اعلان سے نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے گلگت بلتستان کے عوام کی ایک طویل جدوجہد اور سابق حکومتوں کے کئی اقدامات بھی شامل ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے 1999 میں اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ’شمالی علاقہ جات کے لوگ ہر لحاظ سے پاکستانی شہری ہیں۔ ان کے بنیادی حقوق کو آئینی تحفظ دیا جانا ضروری ہے۔‘ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ اس حوالے سے ضروری انتظامی اور آئینی اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔
اس دوران ملک میں مارشل لاء نافذ ہو گیا اور 1999 سے 2008 تک اس فیصلے پر عمل در آمد نہ کیا جا سکا۔ 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے ’گلگت بلتستان سیلف گورنینس آرڈر‘ کے نام پر ایک جامع پیکیج متعارف کرایا جس کے تحت نہ صرف شمالی علاقہ جات کو گلگت بلتستان کا نام ملا بلکہ 33 ارکان پر مشتمل قانون ساز اسمبلی، وزیر اعلیٰ کا انتخاب اور وفاق کی جانب سے گورنر کا تقرر بھی عمل میں لایا گیا۔
اس وقت کے وزیر امور کشمیر قمر زمان کائرہ کو صوبے کا پہلا گورنر مقرر کیا گیا جبکہ قانون ساز اسمبلی کے اولین انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سید مہدی شاہ انتظامی صوبے کے پہلے منتخب وزیر اعلیٰ بنے۔
اس کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام آئینی صوبے اور پاکستان کے دیگر صوبوں کے مطابق حقوق کا مطالبہ کرتے رہے۔ 2015 میں قانون ساز اسمبلی نے ایک قرار داد پاس کی جس میں گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ جس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔

کمیٹی نے گلگت بلتستان کے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور تاریخی حقائق کے تفصیلی مطالعے اور صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد 93 صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی۔
اس کمیٹی کے سربراہ سابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بننے سے ایک تو ان کو پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملے گی۔ پاکستان کے اداروں جیسا کہ قومی مشاورتی کونسل، نیشنل فنانس کمیشن، مشترکہ مفادات کونسل اور دیگر میں گلگت بلتستان کو نمائندگی ملے گی۔ اس نمائندگی کی وجہ سے ان کو وسائل میں پورا حصہ ملے جس سے وہاں ترقیاتی عمل تیز ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’2018 میں شاہد خاقان عباسی کے دور میں ہم نے ایک آرڈر جاری کیا تھا۔ جس کے تحت گلگت بلتستان کو قومی اقتصادی کونسل، این ایف سی، سی سی آئی اور ارسا میں نمائندگی دے دی گئی تھی۔ موجودہ حکومت نے یہ نمائندگی بھی معطل کر رکھی ہے۔ اسی طرح ن لیگ کی حکومت نے سال 2017 اور 2018 میں گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے ایک تہائی کمی کر دی ہے۔‘
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں سول سروس اصلاحات کی منظوری بھی دی گئی تھی۔ جس کے بعد گلگت بلستان کے عوام کو پاکستان کی سول سروسز میں سرکاری نوکریوں میں بھی کوٹہ ملنا تھا اسی طرح ڈیپوٹیشن کا حق بھی ملنا تھا۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت میں تو کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تاہم صوبہ بننے سے ان کا یہ حق بھی محفوظ ہو جائے گا۔‘

یہاں پر یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعہ کشمیر اور اس حوالے سے پاکستان کا دیرینہ موقف بھی تو متاثر ہوگا۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے اس کا حل یہ دیا تھا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل ایک پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تعین کرتا ہے۔ اس میں ترمیم نہ کی جائے بلکہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 59 میں ترمیم کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخصوص نشستوں کے ذریعے نمائندگی دی جائے۔
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سابق رکن اقبال حسین کا کہنا ہے کہ ’ہم تو آئینی صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سے کشمیر کاز کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو آئینی ترمیم میں لکھ دیں کہ گلگت بلتستان کو اس وقت تک آئینی صوبہ بنایا جا رہا ہے جب تک کشمیر کا فیصلہ نہیں ہوجاتا یہ آئینی صوبہ ہوگا اور کشمیر کا جو بھی فیصلہ ہوگا پاکستان اس کو تسلیم کرنے کا پابندہ ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں باضابطہ نمائندگی ملے اور اگر ہمیں ان میں نمائندگی نہیں ملتی تو اور صرف انتظامی صوبہ ہی بنانا ہے تو وہ تو 2009 سے ہم ہیں۔ صرف پاکستانی اداروں میں نمائندگی نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ’سٹیٹ سبجیکٹ رولز‘ لاگو ہیں جس کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری کشمیر میں زمین جائیداد وغیرہ نہیں خرید سکتا جبکہ گلگت بلتستان میں ’سٹیٹ سبجیکٹ رولز‘ لاگو نہیں ہے۔ 'ہمارے یہاں مقامی اور پاکستان کے دیگر علاقوں کی آبادی کا تناسب کم و بیش یکساں ہو چکا ہے۔ اس لیے اب سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے نفاذ کا مطالبہ بھی پورا نہیں ہوسکتا۔‘
