عمران خان نے وقار یونس کی قومی ٹیم میں شمولیت کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ (تصویر : ٹوئٹر)
1989 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان، عمران خان ناسازیٔ طبع کے باعث گھر میں آرام کررہے تھے۔ ان کے بقول ’میں بستر میں پڑا تھا، ایسے ہی ٹی وی چلایا۔‘
ٹی وی آن کرنے کا یہ عمل پاکستان کرکٹ کے لیے بہت اہمیت اختیار کرگیا۔ ٹی وی سکرین روشن ہوئی تو عمران خان نے دیکھا کہ فرسٹ کلاس میچ چل رہا ہے اور کوئی بولر بہت تیز بولنگ کروا رہا ہے۔ اسے چند اوور بولنگ کرتے دیکھ کر کپتان نے جان لیا کہ یہ بولر چیزے دیگر ہے۔
انھوں نے اس کے بعد نوجوان فاسٹ بولر سے ملاقات کرکے اسے قومی کرکٹ ٹیم کے تربیتی کیمپ کا حصہ بننے کی دعوت دی۔ پاکستان ٹیم نے شارجہ میں چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے جانا تھا۔
عمران خان کے اصرار پر سلیکٹروں نے وقاریونس کو ٹیم میں شامل کرلیا۔ اس وقت وقار یونس گمنام فرسٹ کلاس کرکٹر تو نہیں تھے لیکن قومی ٹیم میں شامل ہونے کی منزل پر پہنچنے کے لیے نہ جانے انھیں ابھی اور کتنی مسافت طے کرنی پڑتی، کن کن مراحل سے گزرنا ہوتا اور عین ممکن ہے کہ بہت سے باصلاحیت کھلاڑیوں کی طرح وہ سسٹم کی نذر ہوجاتے۔
لیکن عمران خان کی نظروں میں آنے کے بعد پاکستان کی نمائندگی کا خواب دنوں میں حقیقت بن گیا۔ بلاشبہ ’دن گنے جاتے ہیں اس دن کے لیے‘ قومی ٹیم کا حصہ بننے کا اعزاز اپنی جگہ اہم تر لیکن شارجہ جانا وقار یونس کے لیے ذاتی اعتبارسے خاص اہمیت رکھتا تھا۔
وہ والد کی ملازمت کی وجہ سے اپنے خاندان کے ساتھ یہاں رہ چکے تھے۔ 1981 میں ایک بینیفٹ میچ میں عمران خان کو بولنگ کرتے دیکھنے کے بعد کرکٹ ان کے خون میں رچ بس گئی اور انھوں نے فاسٹ بولر بننے کی ٹھانی۔ آٹھ برس بعد وہ اسی خطۂ زمین پر بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے لیے آن موجود ہوئے جس کا کریڈٹ بچپن کے ہیرو عمران خان کے سر تھا۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے ون ڈے میں وہ متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکے۔ دوسرے میچ میں انھوں نے ویسٹ انڈیز کے تین کھلاڑی آؤٹ کیے۔ ڈیسمنڈ ہینز ان کا پہلا شکار بنے۔ یہ اس بولر کے کریئر کا آغاز تھا جس نے آگے چل کر 262ون ڈے میچوں میں 23.84 کی اوسط اور 30 کے سٹرائیک ریٹ سے 416وکٹیں حاصل کرنی تھیں۔ 1990 میں شارجہ کے اگلے دورے میں انھوں نے سترہ وکٹیں لے کر پاکستان کو آسٹریلشیا کپ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ون ڈے کرئیر کے آغاز کے ایک مہینے بعد 15نومبر1989کوانڈیا کے خلاف کراچی میں وقار یونس کو ٹیسٹ کیپ ملی۔ سچن ٹنڈولکر کا بھی یہ پہلا ٹیسٹ تھا۔ انھیں کرئیر کی پہلی اننگز میں وقار یونس نے آﺅٹ کیا۔سیالکوٹ ٹیسٹ میں وقار یونس کی گیند ناک پر لگنے سے وہ زخمی بھی ہوئے۔اس ٹیسٹ سیریز سے جس سفر کا آغاز ہوا وہ 87ٹیسٹ میچوں میں 23.56 کی اوسط اور 43 کے سڑائیک ریٹ(وسیم اکرم نے ٹیسٹ کرئیر میں 54 کے سٹرائیک ریٹ سے وکٹیں لیں) سے 373وکٹوں پر اختتام پذیر ہوا۔ لاہور میں ون ڈے میچ میں انڈین کپتان سری کانت وقار یونس کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے، امپائر کے فیصلے پر ناراضی دکھائی تو عمران خان نے انھیں بیٹنگ جاری رکھنے کو کہا ، لیکن وہ وقار یونس کی اگلی گیند پر دوبارہ آﺅٹ ہوگئے۔
1990میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں وقار یونس نے صحیح معنوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔تین ٹیسٹ میچوں میں 29وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی بولنگ پر مہمان ٹیم کے بلے بازوں کا کھیلنا محال ہوگیا۔ وقار یونس سے پہلے ریورس سوئنگ کا ہتھیار پاکستانی بولر استعمال کررہے تھے لیکن یہ فن اپنی معراج پر پہنچنے کے لیے ان کی آمد کا منتظر تھا۔ نیوزی لینڈ کے کپتان مارٹن کرو کو یہ کہنا پڑا کہ سوئنگ اور تیزبولنگ کا ایسا امتزاج انھوں نے پہلے نہیں دیکھا۔
مارٹن کرو اس سے پہلے ویسٹ انڈیز کی تیز رفتاربولروں کا سامنا کرچکے تھے لیکن یہ وقار یونس تھے جن کی برق رفتار گیندوں نے انھیں پہلی دفعہ ہیلمٹ کے آگے گرل لگانے پر مجبور کردیا۔ نیوزی لینڈ کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز میں بھی وقار یونس نے عمدہ کارکردگی دکھائی۔سچن ٹنڈولکر کو انٹر نیشنل کرکٹ میں وقار یونس نے پہلی دفعہ آﺅٹ کیا، تو برائن لارا بھی انٹرنیشنل کرکٹ میں پہلی دفعہ انھی کے ہاتھوں شکار ہوئے۔ برائن لارا نے Beating the Field: My Own Storyمیں بتایا ہے کہ وہ اس وقت تک وقار یونس سے زیادہ تیز اور جارح بولر کے خلاف نہیں کھیلے تھے جبکہ وہ اس سے پہلے ویسٹ انڈین بولروں اور انگلینڈ کے ڈیون میلکم کی بولنگ کا سامنا کرچکے تھے۔ برائن لارا کی بات ہورہی ہے تو لگے ہاتھوں ایک ناقابل فراموش گیند کا ذکر بھی ہوجائے۔
1997میں راولپنڈی ٹیسٹ میں وقار یونس نے ’یارکر‘ جو بولنگ میں ان کا ٹریڈ مارک تھی، برائن لارا کو یوں بولڈ کیا کہ وہ لاچاری کی تصویر بن گئے۔ ان کی اس وقت کی حالت کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں، بس اسے دیکھ کر اردو کے اس محاورے کا مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے ’چاروں شانے چت ہونا‘ ویسٹ انڈیز کے سٹار بیٹسمین کے ذکر سے جمیکا سے تعلق رکھنے والے عظیم اتھلیٹ اور دنیا کے تیز ترین سپرنٹر یوسین بولٹ کا خیال آرہا ہے جنھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ بچپن میں وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے پُرجوش حامی اور کھلاڑیوں میں وقار یونس ان کے ہیرو تھے۔ وقار یونس سے پہلے بلے باز فاسٹ بولروں سے اپنا سر بچانے کی فکر میں رہتے تھے لیکن وقار یونس کی وجہ سے انھیں پاﺅں کی فکر لاحق ہو گئی۔ عمران خان نے وقار یونس کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم میں آنے کا در ہی وا نہیں کیا بلکہ کاﺅنٹی کرکٹ کا دروازہ کھلوانے کے لیے بھی کردار ادا کیا۔
وقار یونس نے انگینڈ میں 1991کے سیزن میں 14.65کی اوسط سے 113کھلاڑی آﺅٹ کرکے اپنی دھاک بٹھا دی۔ اس کارکردگی کی بنا پر انھیں 1992 میں وزڈن کرکٹ آف دی ایئر قرار دیا گیا۔
وقار یونس کی اس کامیابی میں ان کے ٹیلنٹ کے ساتھ ساتھ ان کی کھیل سے لگن اور اخلاص کا بنیادی کردار تھا۔ جان کریس کی کتاب ’Wasim and Waqar: Imran's Inheritors‘ میں عمران خان نے بتایا ہے کہ امریکہ میں پاکستانی ٹیم نمائشی میچ کھیلنے گئی تو ایک دن وہ ہوٹل کے جم میں گئے تو وہاں وقار یونس اور عاقب جاوید کو پہلے سے موجود پایا۔ وقار یونس پہلی مرتبہ امریکہ آئے تھے لیکن تفریح کے لیے جانے کے بجائے انھوں نے ویٹ ٹریننگ کے لیے جم کا رخ کیا جس سے عمران نے جانا کہ وہ کس قدر پرُعزم ہیں۔ اقبال نے ٹھیک کہا ہے: کمال کس کو میسر ہوا ہے بے تگ ودو‘
عمران خان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کرکٹ میں وقار یونس کی سی تیزی سے کسی فاسٹ بولرکو ابھرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وقار یونس کی خوشی قسمتی تھی کہ انھیں عمران خان جیسا تجربہ کار استاد ملا جو میدان سے باہر اور اندر ان کی رہنمائی کے لیے موجود تھا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وقار بہت تیزی سے سیکھنے والا بولر تھا۔
عمران خان کوبولرکی دوسری خوبیاں بعد میں، سب سے پہلے اس کی تیز رفتاری متاثر کرتی۔ وقار یونس نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب کوئی نیا بولر ٹیم میں آتا ہے تو وہ بولنگ کے دوران بہت سے گُر آزمانا چاہتا ہے جو اس کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوتے،اس کے برعکس وہ ایک ہی بات جانتے تھے کہ گیند کو زیادہ سے زیادہ تیز کرانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب بھی انھوں نے عمران خان سے دورانِ بولنگ پوچھا کہ کیا کرنا چاہیے تو ان کا جواب ہوتا اور کچھ نہیں بس تم تیز بولنگ کرو کیونکہ وہ انھیں میڈیم پیسر کے بجائے فاسٹ بولر کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔‘
وقار یونس کی عمدہ کارکردگی کی وجہ سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ آسٹریلیا میں ہونے والے 1992کے ورلڈ کپ میں اپنی بولنگ سے پاکستان ٹیم کو کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کریں گے لیکن بدقسمتی سے ان فٹ ہونے کی وجہ سے وہ ٹورنامنٹ نہ کھیل سکے۔ ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم 1992میں انگلنیڈ پہنچی جہاں وقار یونس نے حریف ٹیم کے بلے بازوں کو اپنے سامنے ٹکنے نہ دیا۔
کاﺅنٹی کرکٹ سے حاصل شدہ تجربہ بھی ان کے خوب کام آیا۔ وسیم اکرم اور ان کی جوڑی پاکستان میں خود کو منوا چکی تھی، اب دونوں نے کامیابی کے جھنڈے سرزمینِ غیر میں گاڑے۔ آنے والے برسوں میں ’ٹو ڈبلیوز‘ کی یہ جوڑی حریف بلے بازوں کے لیے مہیب خواب بنی رہی۔ ٹیسٹ اور ون ڈے میں وقار یونس کی کامیابیوں کی ایک لمبی داستان ہے جس کا بیان پھر سہی، اس مضمون میں بس یہ دکھانا مقصود تھا کہ کہ قومی کرکٹ ٹیم میں ان کی آمد کی راہ کیسے ہموار ہوئی اور پھر کس طرح انھیں بہت جلد سٹار فاسٹ بولر کا رتبہ حاصل ہوگیا۔