’کارگل آپریشن کے مخالف‘ ایڈمرل فصیح بخاری کون تھے؟
’کارگل آپریشن کے مخالف‘ ایڈمرل فصیح بخاری کون تھے؟
منگل 24 نومبر 2020 14:21
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
’ایڈمرل فصیح بخاری کارگل آپریشن کے مخالف تھے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
منگل کی صبح انتقال کرنے والے پاکستان نیوی کے سابق سربراہ اور سابق چیئرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری فوج کے ان سینیئر افسران میں شامل ہیں جو مدتِ ملازمت ختم ہونے سے قبل ہی اپنے ادارے کو احتجاجاً خیرباد کہہ دیتے ہیں۔
فصیح بخاری نے بھی ایسا ہی ایک احتجاج اس وقت ریکارڈ کرایا جب دو اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کر دیا تھا۔
فصیح بخاری کے مطابق وہ جنرل مشرف سے سینیئر تھے اس لیے اس عہدے پر ان کا حق تھا۔
ایڈمرل فصیح بخاری نے 1962 میں پاکستان نیوی میں کمیشن حاصل کیا اور وہ 1997 سے 1999 تک پاک بحریہ کے سربراہ رہے۔
سابق ڈی جی نیول انٹیلیجنس کموڈور شاہد اشرف کے مطابق ایڈمرل فصیح بخاری کارگل آپریشن کے مخالف تھے اور انہوں نے اس آپریشن کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا تھا۔ کموڈور شاہد اشرف، جن کا آگسٹا سب میرین کک بیکس کیس میں کورٹ مارشل ایڈمرل فصیح بخاری نے کیا تھا، کا کہنا تھا کہ سابق نیول چیف نے ان کے حق میں بعد میں اس وقت کے وزیر دفاع نوید قمر کو خط لکھ کر انہیں رعایت دینے کی سفارش کی تھی۔ اور اس کے علاوہ بعد میں تعینات ہونے والے نیول چیف ایڈمرل آصف سندھیلہ سے ذاتی طور پر مل کر بھی ان سے ریلیف کی اپیل کی۔ جس کے بعد شاہد اشرف کے مطابق ان کی نظر میں مرحوم کی عزت میں اضافہ ہوا کہ انہوں نے ایک بڑا آدمی ہونے کا ثبوت دیا۔
ان کو پاکستان پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کے قریب سمجھا جاتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ جب انہیں اکتوبر 2011 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی چیئرمین نیب لگا دیا گیا تھا تو اس وقت کی اپوزیشن مسلم لیگ نواز نے ان کی حمایت نہیں کی تھی۔
سینیئر صحافی اور دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹیگیشن انصار عباسی کے مطابق ’چیئرمین نیب کے طور پر ان کی تعیناتی متنازعہ رہی اور نیب کے اس دور کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے جاتے رہے۔ زیادہ اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ حکومتی کیسز پر دوستانہ تفتیشن کی جاتی تھی جبکہ اپوزیشن کے سیاسی رہنماوں کے کیسز بھی صدر زرداری کی مفاہمانہ سوچ کے مطابق سرد خانے میں ڈال دیے جاتے تھے۔‘
ستمبر 2012 میں سپریم کورٹ نے ایڈمرل فصیح بخاری کو شو کاز نوٹس جاری کیا تھا کہ وہ بتائیں کہ بطور چیئرمین نیب پیپلز پارٹی کے وزرا کے خلاف رینٹل پاور پلانٹس ڈیل میں مبینہ کرپشن پر کارروائی کیوں نہیں کر رہے۔
جنوری 2013 میں نیب چیئرمین کے طور پر انہوں نے صدر آصف زرادی کو خط لکھ کر اطلاع دی تھی کہ ان کے ماتحت نیب کے افسران پر سپریم کورٹ کی طرف سے دباو ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے وزرا اور اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف جلد کارروائی کریں۔
خط میں کہا گیا تھا کہ نیب افسران کو کیسز کی مناسب تیاری کا وقت بھی نہیں ملتا جس کی وجہ سے ایک نیب افسر نے چند دن قبل خود کشی بھی کر لی تھی۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر نیب کے ایک سابق پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ انہیں سابق چیئرمین نیب کی تعیناتی اور کارکردگی پر سخت اعتراض تھا تاہم اب چونکہ ان کی وفات ہو چکی ہے تو وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہنا چاہتے۔
ایڈمرل فصیح بخاری کی برطرفی
نیب چیئرمین کی تعیناتی کے خلاف وقت کے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار سپریم کورٹ میں درخواست لے کر گئے جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کی عہدے پر تعیناتی غیر قانونی ہے کیوں کہ قانون کے مطابق اپوزیشن سے مشاورت کے بغیر یہ تقرری عمل میں لائی گئی۔
سپریم کورٹ نے 2013 میں مسلم لیگ نواز کے حکومت بنانے سے چند دن قبل قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے طور پر ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کی تقرری کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو اس عہدے کے لیے نئی تقرری کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے ساتھ بامقصد مشاورت کا عمل پورا نہیں کیا گیا جو کہ نیب آرڈیننس کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس تصدق حیسن جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کی درخواست پر یہ مختصر فیصلہ سُنایا تھا۔