Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مانگنے سے بہتر ہے جتنی بھی سخت محنت کرنی پڑے کریں‘

خواتین کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مردوں کی طرح سخت اور مشکل کام نہیں کر سکتیں وہ بہت جلد گھبرا کر ہار مان لیتی ہیں لیکن کئی ایک مثالیں ایسی موجود ہیں جنہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ عورتیں سخت اور مشکل کام نہیں کر سکتیں۔
ایک ایسی ہی مثال لاہور سے تعلق رکھنے والی آمنہ بی بی کی ہے جن کے شوہر کی وفات کے بعد انہیں سخت محنت کرنا پڑی اور وہ محنت کرنے سے بالکل بھی نہیں گھبرائیں۔
 آمنہ بتاتی ہیں کہ ان کی تین بیٹیاں ہیں۔ ان کے شوہر کا انتقال کینسر جیسے مرض کی وجہ سے ہوا اور شوہر کی وفات کے بعد وہ سبزی فروخت کرکے معاملات زندگی چلاتی ہیں۔

 

’20 برس تک میرے شوہر سبزی فروخت کرتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد بیٹیوں کی پرورش جب میرے کندھوں پر آن پڑی تومجھے اپنے شوہر کی دوکان پر سبزی فروخت کرنے کے لیے بیٹھنا پڑا۔‘
آمنہ کہتی ہیں کہ وہ پڑھی لکھی نہیں کہ سبزی فروخت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرسکتیں لہذ ان کے پاس اس کام کو کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔
سبزی اس قدر مہنگی ہو چکی ہے کہ لوگ خریدتے وقت ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں بعض خریدار سبزی خریدتے وقت مجھ سے ہی الجھتے ہیں کہ سبزی اتنی مہنگی کیوں ہے؟ اب اس سوال کا جوا ب تو میرے پاس بھی نہیں ہوتا ہم تو خود مجبور ہیں ہمیں خود بھی مہنگے داموں سبزی ملتی ہے۔‘
ان کے مطابق بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ گاہک سبزی مہنگی ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر ہی چلے جاتے ہیں۔
’بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے حکومت کو سوچنا چاہیے کہ کس طرح وہ عوام کو ریلیف دے سکتی ہے۔‘
آمنہ بی بی  کہتی ہے ’صبح اذان کے وقت اٹھ کر منڈی کا رخ کرتی ہوں اور وہاں سے سبزیاں خرید کر لاتی ہوں اور دوکان میں ترتیب سے رکھتی ہوں۔ انہیں سارا دن تازہ دم رکھنے کےلئے پانی بھی لگانا پڑتا ہے کڑی دھوپ سے بھی بچانا پڑتا ہے۔‘
مہنگائی کی وجہ سے لوگ سبزی کم خریدتے ہیں جن کے گھر میں آٹھ دس افراد ہیں وہ سبزی خرید کر پکانے کے بجائے چکن بنانے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

آمنہ بی بی کے مطابق بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ گاہک سبزی مہنگی ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر ہی چلے جاتے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

عموماً کوئی خاتون یا لڑکی اگر کوئی ایسا کام کررہی ہوتو پاس سے گزرتے لڑکے ان پر جملے کس دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پریشان ہوجایا کرتی ہیں۔ تاہم آمنہ کا کہنا ہے کہ جب سے انہوں نے دوکان پر سبزی بیچنے کا کام شروع کیا ہے انہیں کسی قسم کی دِقت اور پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ’
گاہک آتے ہیں اور سبزی لے کر چلے جاتے ہیں کبھی نہ کسی گاہک کی طرف سے مجھ پر جملے کسے گئے نہ ہی کسی راہگیر نے مجھے عورت ہونے کی وجہ سے پریشان کیا۔‘
آمنہ کے مطابق وہ اپنا کام نہایت ہی پرسکون انداز سے کر ر ہی ہیں۔
آمنہ کہتی ہیں کہ اگر وہ محنت مزدوری نہیں کریں گی تو نوبت فاقوں تک آجائے گی اس لئے وہ صبح نو بجے دوکان پر آتی ہیں اور رات نو بجے دوکان بند کر دیتی ہیں۔
آمنہ کا ماننا ہے کہ کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا بس کسی بھی کام کو کرنے کا عزم اور ارادہ ہونا چاہیے۔ ’مانگ کر کھانے سے بہت بہتر ہے کہ جتنی بھی سخت محنت کرنی پڑے کریں۔‘
آمنہ اپنی بیٹیوں کو پڑھا لکھا رہی ہیں۔ کہتی ہیں ’میں اپنی بیٹیوں کو اتنی تعلیم دلوانا چاہتی ہوں کہ کل کو ان پر اگر کوئی مشکل وقت آن پڑے تو وہ باعزت طریقے سے کما کر کھا سکیں۔‘
آمنہ خواتین کو پیغام دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ خواتین بھی کسی سے کم نہیں ہیں وہ ہرکام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں بس ارادہ اگر باندھ لیا جائے تو پھر اردگرد کے حالات سے ڈر یا گھبرا کر گھر نہیں بیٹھنا چاہیے ہار مان کو جینا کوئی جینا نہیں ہے۔
گو کہ میں غیر تعلیم یافتہ ہوں لیکن زمانے کی اونچ نیچ کو بخوبی سمجھتی ہوں۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں