شرمیلا ٹیگور: بنگال کی ’دیوی‘ ’کشمیر کی کلی‘ کیسے بنی؟
شرمیلا ٹیگور: بنگال کی ’دیوی‘ ’کشمیر کی کلی‘ کیسے بنی؟
منگل 8 دسمبر 2020 6:00
شبانو علی -اردو نیوز، ممبئی
آج شرمیلا ٹیگور کا 76 واں یوم پیدائش ہے۔ فوٹو اے ایف پی
کسی نے ’کشمیر کی کلی‘ پکارا تو کسی نے ’سپنوں کی رانی‘ اور یہ اعزاز انڈین سینما کی ایک ہی اداکارہ شرمیلا ٹیگور کو ملا، جو واقعی پٹودی خاندان کی رانی بنیں۔
شرمیلا ٹیگور نے جتنی یادگار فلمیں کیں اسی طرح ان کے افسانے بھی یادگار رہے۔ آٹھ دسمبر کو ان کا 76 واں یوم پیدائش ہے۔ ان کا تعلق ایک معروف بنگالی گھرانے سے ہے تاہم ان کی پیدائش آٹھ دسمبر 1944 کو حیدر آباد میں ہوئی۔
ان کے والد برٹش انڈیا کارپوریشن میں جنرل مینیجر تھے جبکہ ان کی والدہ کا تعلق ریاست آسام سے تھا۔ فلمی دنیا میں شرمیلا کی آمد انتہائی حیرت انگیز تھی لیکن پھر بعد میں وہ مزید ہنگامہ خیز بن گئی۔
ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ معروف اداکار ستیہ جیت رے کو ان کی فلم ’اپور سنسار‘ یعنی ’اپو کی دنیا‘ کے لیے ایک نئے چہرے کی تلاش تھی۔ اس وقت ان کی عمر کوئی بارہ، تیرہ سال تھی اور وہ سکول میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔
ایک دن ان کے گھر ان کے والد کو فون آیا کہ ستیہ جیت رے ان کی بیٹی کا آڈیشن کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ ستیہ جیت رے انتہائی قابل احترام فلم ساز تھے اس لیے ان کے والد نے حامی بھر لی اور انہیں ایک نو عمر لڑکی ’اپرنا‘ کے کردار کے لیے منتخب کر لیا گیا۔
ان کی سکول پرنسپل کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے ہنگامہ برپا کر دیا کہ ان کی وجہ سے سکول کی بچیوں پر خراب اثرات مرتب ہوں گے یا تو وہ فلم چھوڑ دیں یا پھر سکول۔
شرمیلا ٹیگور نے بتایا کہ ان کے والد نے غصے میں آ کر کہہ دیا کہ اب ان کی بیٹی سکول نہیں جائے گی۔ ان کے والد کے فیصلے نے شرمیلا کے کیریئر کا رخ طے کر دیا لیکن شرمیلا کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ عام خیال تھا کہ اچھے گھروں کی لڑکیاں فلموں میں نہیں جاتیں اور جو فلموں میں کام کرتی ہیں وہ اچھی نہیں ہوتیں۔
بعد میں ستیہ جیت رے نے اپنی بنگالی فلم ’دیوی‘ کے لیے شرمیلا ٹیگور کو منتخب کیا جس سے فلم انڈسٹری میں یہ بات واضح ہو گئی کہ شرمیلا میں کچھ تو خاص ہے کہ انہیں اتنے بڑے فلم ساز اور ہدایت کار بار بار موقع دے رہے ہیں۔
ان کی یکے بعد دیگرے بنگالی زبان میں پانچ سالوں میں چھ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ پھر کیا تھا انہیں بالی وڈ یعنی ہندی سینما سے آفرز آئیں اور یہ آفر دینے والے بنگالی فلم ساز اور ہدایت کار شکتی سامنت تھے جنھوں نے فلم ’کشمیر کی کلی‘ میں انھیں لیڈ رول آفر کیا تھا۔
شرمیلا ٹیگور نے بتایا کہ اس وقت انھوں نے پروفیشنل اداکاری کا فیصلہ کیا اور اس آفر کو قبول کر لیا۔ شرمیلا نے یہ بھی بتایا کہ انہیں اس فلم کے اختتام تک انہیں ڈانس کرنا آ گیا تھا۔ اس سے قبل وہ رقص سے ناواقف تھیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے گھر میں ان کے علاوہ سب سریلے تھے اور گانے کی روایت بھی تھی۔
شرمیلا ٹیگور کے بارے میں ایک زمانے تک یہ بات گشت کرتی رہی کہ انھوں نے شادی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ جو ان کے آنچل میں چھکا مارے گا وہ اس سے شادی کریں گی اور انڈین ٹیم کے کپتان نواب منصور علی خان پٹودی نے یہ کام کر دکھایا تھا۔
فلم اداکارہ سیمی گریوال نے اپنے پروگرام ’رینداوو‘ میں جب یہ سوال نواب پٹودی سے کیا تو وہ ٹال گئے جب کہ شرمیلا ٹیگور نے بتایا کہ ان کے اہل خانہ کو کرکٹ سے دلچسپی تھی اور وہ جے سمہا کی وجہ سے ایک تقریب میں پہنچی تھیں جہاں پہلی بار ان کی نواب پٹودی سے ملاقات ہوئی اور پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔
شرمیلا ٹیگور نے یہ بھی بتایا کہ نواب پٹودی کا برطانوی لہجہ ان کی سمجھ سے بالاتر تھا اور وہ خود ہی لطیفے سنا کر ہنس رہے تھے لیکن انھوں نے ایک واقعے کا ذکر کیا کہ ایک بار پٹودی نے انہیں ایک شعر سنایا اور کہا کہ انہوں نے ان کے لیے یہ شعر کہا ہے۔ شرمیلا ٹیگور پھولی نہ سمائیں اور انھوں نے کسی سے کہا کہ پٹودی نے ان کے لیے یہ شعر کہا ہے:
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
تو انھوں نے کہا کہ نادان تو تم ہو، یہ شعر تو غالب کا ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب انڈیا میں کرکٹ اور سینما دو ہی چیزیں سماج میں گفتگو کا عام موضوع ہوا کرتی تھیں اور ان دونوں کی محبت نے لوگوں میں مزید دلچسپی پیدا کر دی تھی۔
شرمیلا ٹیگور کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وہ بکنی استعمال کرنے والی پہلی اداکارہ تھیں لیکن شرمیلا نے بتایا کہ انھوں نے کسی بھی فلم میں بکنی میں شوٹنگ نہیں کی البتہ’این ایوننگ ان پیرس‘ میں انھوں نے سوئم سوٹ پہنا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ در اصل انہوں نے بکنی میں ’فلم فیئر‘ میگزین کی سرورق کے لیے پوز کیا تھا۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ پوسٹر پورے ممبئی میں لگا ہوا تھا اور اسی دوران نواب پٹودی کی والدہ ان سے ملنے کے لیے آنے والی تھیں تو اس کے متعلق انھیں یہ تشویش ہوئی تھی کہ کہیں ان کی نظر اس پر نہ پڑ جائے۔
لیکن جب وہ انڈیا میں فلم سینسر بورڈ کی سربراہ بنیں تو انھوں نے فلموں میں بِکنی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
بہر حال شرمیلا ٹیگور اور نواب پٹودی کی 27 دسمبر سنہ 1969 میں شادی ہو گئی اور اس سے قبل انہوں نے اسلام قبول کیا اور ان کا نام عائشہ بیگم رکھا گیا۔
کیا ان کی شادی میں ہندو اور مسلم کا مسئلہ یا شاہی گھرانے اور غیر شاہی گھرانے کی دقتیں پیش آئی تھیں؟ اس سوال کے جواب میں متعدد جگہ انہوں نے کہا کہ ایسی کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کے گھر والوں کو مسلم خاندان میں شادی پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن انھوں نے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ ان کے اہل خانہ اس بات کے لیے پریشان تھے کہ منصور کوئی نوکری نہیں کرتے۔
منصور نے اس کا ذکر ایک الگ انداز میں کیا تھا کہ آسٹریلیا کے ٹور پر گريگ چیپل نے ان سے پوچھا کہ آپ کرکٹ کھیلنے کے علاوہ کیا کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ’پرنس ہوں۔‘ انھوں نے پھر پوچھا آخر آپ روزی روٹی کمانے کے لیے کیا کرتے ہیں ’تو پھر میں نے جواب دیا کہ میں پرنس ہوں۔’ ان کے کہنے کا مطلب تھا ’ہمیں کمانے کیا ضرورت ہمارے پاس بہت دولت ہے لیکن یہ بات عام لوگوں کی سمجھ سے بالا تر تھی۔‘
شرمیلا نے بتایا کہ وہ بھی ٹيگور جیسے بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے انہیں بڑے گھرانے کی نزاکتوں کا احساس تھا اور انھوں نے اسے نبھا کر بھی دکھا دیا۔
اسی سال یعنی سنہ 1969 میں شرمیلا کی فلم ’ارادھنا‘ آئی تھی جس میں ان کی اور راجیش کھنہ کی جوڑی کو خوب سراہا گیا اور اس فلم میں اداکاری کے لیے انہیں سنہ 1970 میں بہترین اداکارہ کے فلم فیئر ایوراڈ سے نوازا گیا۔
اس کے بعد انہیں فلم ’موسم‘ کے لیے بہترین اداکارہ کے نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلم ’کشمیر کی کلی‘ کے بعد وہ ملٹی سٹارر فلم ’وقت‘ میں نظر آئیں جس میں بلراج ساہنی کے ساتھ راج کمار، سنیل دت اور ششی کپور تھے اور سادھنا کے ساتھ شرمیلا بھی اہم کردار میں تھیں۔
ان کی بہترین فلموں میں انوپما، کشمیر کی کلی، این ایوننگ ان پیرس، ارادھنا، امر پریم، داغ، موسم، چپکے چپکے, نمکین اور بعض دوسری فلمیں شامل ہیں۔
انہیں انڈیا کے تیسرا سب سے گراں قدر ایوارڈ پدم بھوشن سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کے تین بچے ہیں جن میں سیف علی خان اور سوہا علی خان نے فلموں کا رخ کیا جب کہ صبا علی خان زیورات کی ڈيزائنر ہیں۔