Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسانوں کا میلہ

انڈیا میں آج کل کسان ذرا ناراض ہیں اور جب وہ ناراض ہوتے ہیں تو سڑکوں پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔
بھائی ناراضی دکھانے کے اور طریقے بھی ہوں گے، آپ اپنے گاؤں کی چوپال پر بیٹھیے، پردھان کی بیٹھک میں ڈیرہ ڈالیے یا پھر اپنے لہلاتے ہوئے کھیتوں میں، دیکھیے، حکومت کتنی پریشان ہے کہ کہیں آپ کو کورونا وائرس نہ ہو جائے، آپ کندھے سے کندھا جوڑے جو بیٹھے ہیں۔
لیکن کسان کب کسی اور کی پرواہ کرتے ہیں، وہ تو بس اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ جب بہار میں الیکشن ہو رہا تھا تو کورونا وائرس چھٹی پر تھا کیا جو وہاں اتنے بڑے بڑے جلسے کیے جا رہے تھے۔

 

اس لیے اب نئی دہلی کے بارڈر پر تقریباً دو ہفتوں سے ایک میلہ سا لگا ہوا ہے، کہیں جلیبیاں تلی جارہی ہیں تو کہیں گوبھی اور بیسن کی پکوڑیاں، دودھ کی ندیاں بہہ رہی ہیں، کھیرتقسیم ہو رہی ہے، مظاہرین ہوں یا تماشائی، کوئی خالی پیٹ اور خالی ہاتھ نہیں لوٹ رہا۔
اور کسان بھی بضد ہیں، لوٹیں گے تو اپنے مطالبات منوانے کے بعد۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ جب ان کے پاس وسائل کی بہتات ہے تو سڑکوں پر کیوں پڑے ہیں؟ حکومت کو یوں بلیک میل کرنا کیا اچھی بات ہے؟ حکومت تو ان کا بھلا ہی چاہتی ہے، ایسا کوئی کام کیوں کرے گی جس سے انہیں نقصان ہو؟
کسان جواب میں کہہ رہے ہیں کہ ہماری جیبوں سے ہمارے دل بڑے ہیں، اور ہم بچے نہیں ہیں کہ اپنے اچھے اور برے میں فرق نہ کر سکیں۔
ہماری بہتری کے لیے کچھ کرنا ہی تھا تو ہم سے بھی پوچھ لیتے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟
تنازع تین نئے قوانین پر ہے جن کے بارے میں حکومت کا دعوی ہے کہ وہ کسانوں کے دن بدل دیں گے۔ کسانوں کو فکر ہے کہ دن تو بدلیں گے ضرور لیکن اچھے کے لیے نہیں۔

کسانوں کو فکر ہے کہ بازار کی بڑی مچھلیاں انہیں نگل جائیں گی (فوٹو: گیٹی امیجز)

 نئے قوانین کے تحت کسانوں کو یہ آزادی ہوگی کہ وہ جہاں چاہیں اور جسے چاہیں اپنی زرعی پیداوار بیچ سکتے ہیں۔ حکومت کا دعوی ہے کہ اس فری مارکٹ نظام سے ان کی آمدنی بڑھے گی، کسانوں کو فکر ہے کہ اگر ان سے حکومت کی نگرانی والی منڈیوں کا ’سیفٹی نیٹ‘ چھین لیا گیا تو بازار کی بڑی مچھلیاں انہیں نگل جائیں گی، بڑی بڑی کمپنیوں کے سامنے چھوٹے کسانوں کی کہاں چلے گی، ان کے استحصال کو کون روکے گا۔
 وہ چاہتے ہیں کہ پہلے سے مقررکردہ مخصوص قیمت پر ان کی فصل خریدنے کا موجودہ نظام جاری رہے ورنہ بڑی کمپنیاں من مانے دام پر ان کی پیداوار خریدیں گی۔ حکومت اس کے لیے تیار ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی کوئی تک نہیں بنتی کیونکہ سرکار کے گودام پہلے سے بھرے پڑے ہیں اور وہاں اناج سڑ رہا ہے۔
یہ نظام فوڈ سکیورٹی حاصل کرنے کے لیے وضع کیا گیا تھا، اب حکومت کے پاس اجناس کا اتنا سٹاک رہتا ہے کہ اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بہرحال، کسان بضد ہیں کہ حکومت تینوں بل واپس لے اور حکومت قانون واپس لے کر کوئی ایسی مثال قائم کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی جس سے لگے کہ اسے جھکایا جاسکتا ہے۔
یہ پورا مسئلہ کافی پیچیدہ ہے لیکن بس اتنا سمجھ لیجیے کہ نہ حکومت ہی زیادہ غلط ہے اور نہ کسان۔ حکومت اب کسانوں سے بات کر رہی ہے، ان کے خدشات دور کرنے کو بھی تیار ہے، قوانین میں ترمیم کی پیش کش بھی کر چکی ہے لیکن اگر یہ سب کرنا ہی تھا تو کسانوں اور زراعت کے شعبے میں کام کرنے والوں سے پہلے ہی بات کیوں نہیں کی؟

انڈیا میں آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ کھیتی پر انحصار کرتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

لاک ڈاؤن کے درمیان کیوں فرمان جاری کرکے نئے قوانین کا اطلاق کر دیا اور پھر کیوں پارلیمان کے اجلاس میں اپنی اکثریت کا سہارا لے کر ان متنازع اصلاحات پر پارلیمان کی مہر لگا دی۔
انڈیا میں آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ کھیتی پر انحصار کرتا ہے اور ان میں سے زیادہ تر بہت غریب ہیں۔ ملک کی قومی مجموعی پیداوار میں کھیتی کا یوگدان مسلسل کم ہو رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دوسرے شعبے زیادہ تیزی سے ترقی کر کر رہے ہیں۔
یہ سب مانتے ہیں کہ کسانوں کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے، یہ بہت کم لوگ مانتے ہیں کہ ان کی فلاح کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں ان کی مرضی شامل نہیں ہونی چاہیے۔
نئی دہلی کی سرحدوں پر میلہ تو دیر سویر ختم ہوجائے گا، یا تو کسان تھک کر گھر لوٹ جائیں گے، دسمبر کی سردی ہے اور کھلے آسمان کے نیچے رات گزارنا کوئی آسان کام نہیں، چاہے آپ کسان ہی کیوں نہ ہوں، یا حکومت جھکے گی کیونکہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو اگر یہ پیغام جائے کہ ان کے غصے اور ان کی رائے کی کوئی قدر نہیں ہے تو بڑے سے بڑے رہنما کی راتوں کی نیند اڑ سکتی ہے پھر چاہے آپ نریندر مودی اور امت شاہ ہی کیوں نہ ہوں۔
مودی حکومت کے دوسرے دور اقتدار میں ایسے فیصلوں کی فہرست بہت لمبی ہے جن کا بس اچانک اعلان کر دیا گیا اور لوگ سوچتے رہ گئے کہ یہ کب ہوگیا۔

حکومت کو شاید یہ بات سمجھ میں ضرور آئے گی کہ قانون سازی میں زور زبردستی کبھی اچھی نہیں ہوتی (فوٹو: اے ایف پی)

رات آٹھ بجے یہ اعلان کر دیا گیا کہ کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے صرف چار گھنٹے کے نوٹس پر پورا ملک بند کیا جارہا ہے یا پھر ایک دن اچانک پارلیمان میں یہ اعلان کہ جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی آئین کی دفعہ 370 کو ختم کردیا گیا ہے۔
اور ہاں، شہریت کے قانون میں اس متنازع ترمیم کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کے خلاف گزشتہ برس انہیں دنوں میں عورتیں سڑکوں پر نکل آئیں تھیں اور دہلی کے شاہین باغ میں ان کا دھرنہ ان کے غصے کی علامت بن گیا تھا۔
کسانوں اور حکومت کے درمیان اس ٹکراؤ سے کسانوں کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن حکومت کو شاید یہ بات سمجھ میں ضرور آئے گی کہ قانون سازی میں زور زبردستی کبھی اچھی نہیں ہوتی۔

شیئر: