Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین حکومت کی کسانوں کو مذاکرات کی دعوت

کسان رہنماؤں کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے (فوٹو:اے ایف پی)
انڈیا کی چھ ریاستوں کے کسانوں کی مطالبات کے حق میں احتجاج کے لیے دہلی کی طرف پیش قدمی کے پیش نظر انڈین  حکومت نے کسان رہنماؤں کو مذاکرات کے لیے مدعو کر لیا ہے۔
ان کسانوں کے متعدد مطالبات ہیں لیکن وہ ستمبر میں زراعت کے شعبے میں لائے جانے والے نئے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔
پولیس کی جانب سے مظاہرین کو روکنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کیننز کا استعمال کیا گیا تھا تاہم جمعے کو رات گئے انہیں نئی دہلی میں داخلے کی اجازت دے دی گئی۔
ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے مناظر میں ان کسانوں میں سے کچھ کو دارالحکومت کی جانب بڑھتے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ہزاروں تاحال شہر کی داخلی حدود سے باہر موجود ہیں۔
وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کا کہنا ہے کہ ’ہم نے کسانوں کی تمام تنظیموں کو تین دسمبر کو بات چیت کے لیے بلایا ہے اور ہم پہلے بھی بات کر چکے ہیں اور اب بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘
 کسان رہنماؤں کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے (فوٹو:بزنس انسائیڈر)

کسان تنظیمیں ستمبر میں منظور کیے جانے والے بل کو مسترد کرتے ہوئے گذشتہ دو ماہ سے سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے حکومت مقرر کر دہ نرخوں پر اناج خریدنا بند کر دے گی اور اس کے نتیجے میں تجارتی کمپنیاں ان کے غلے کی ستے داموں میں خریداری کریں گی۔
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ زراعت کے شعبے میں اصلاحات کے لیے ان قوانین کی ضرورت تھی۔
کسانوں کے ایک رہنما مجہیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، جب تک ہم دارالحکومت تک نہیں پہنچ جاتے اور حکومت کو ان کالے قوانین کے خاتمے پر مجبور نہیں کر دیتے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘
اپوزیشن جماعتوں اور مودی حکومت کے کچھ اتحادیوں نے ان قوانین کو ’کسان مخالف‘ قرار دیا ہے۔

شیئر: