Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کا امتحان

کیا ن لیگ کے کارکن مریم نواز کی مزاحمتی سیاست کے لیے تیار ہیں؟ (فوٹو: اے ایف پی)
سیاست اور خصوصاً قیادت میں کامیابی کے لیے کئی طرح کی اہلیت درکار ہوتی ہے۔ کرشماتی شخصیت، فن تقریر، جرات انکار، لوگوں میں جذبہ پیدا کرنا وغیرہ وہ صلاحیتیں ہیں جن کا ذکر اکثر ہوتا ہے۔
سیاست میں مگر انتظامی صلاحیتیں، گراس روٹس پر محنت، لوگوں کو گھروں سے نکالنا اور مقامی دھڑوں کو مینج کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔  
مریم نواز کے لیے لاہور جلسہ دونوں طرح کی صلاحیتوں کا امتحان تھا۔ پی ڈی ایم کی روح رواں بھی وہ ہیں، پھر والد کے بیرون ملک اور چچا اور کزن کے جیل میں ہونے کے بعد پارٹی پر بھی کنٹرول مضبوط تر ہے۔ اوپر سے لاہور مسلم لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جہاں سے قومی اسمبلی کی 14 میں سے 11 سیٹیں ن لیگ کے پاس ہیں اور دس لاکھ کے قریب ووٹ بھی ن لیگ کو ملے ہیں۔
انہوں نے جلسے سے پیشتر سیاسی سرگرمیاں زور و شور سے کیں۔ ایک طرف استعفوں کا شور اٹھا تو دوسری طرف خود بھی گلی گلی میں کارکنوں تک پہنچیں اور پورے ملک سے اپنے رہنماؤں کو لاہور بلا کر کارنر میٹنگز میں بھی ڈیوٹی لگائی۔
باوجود دادی کی وفات کے، ذرائع کے مطابق، رائے ونڈ کی رہائش گاہ ایک آپریشن سینٹر کے طور پر کام کر رہی تھی جہاں سے کارکنوں کی ڈائریکٹ مانیٹرنگ ہو رہی تھی۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے بالواسطہ رکاوٹیں ضرور تھیں مگر ملتان جیسا کریک ڈاؤن دیکھنے میں نہیں آیا۔
جلسے کا نتیجہ مگر سامنے ہے۔ مکمل غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کو تعداد کے اعتبار سے ایورج  یا نارمل شو کہا جائے گا۔ یہ نہیں کہ حکومتی دعووں کے مطابق چند ہزار لوگ تھے مگر بہت پاورفل جلسہ  تو کسی طور بھی نہیں کہا جا سکتا۔
جلسوں میں شریک تعداد سیاست میں کامیابی یا ناکامی کا حتمی ثبوت نہیں سمجھی جاتی مگر اس جلسے سے توقعات خود مریم نواز نے بڑھائیں۔ اس لیے ان کی پارٹی کے اندر اور باہر دونوں طرف یہ جلسہ توجہ کا مرکز بن گیا۔
 کئی فاصلے سے دیکھنے والے یا  fence sitters اگلے فیصلوں کے لیے مریم نواز کی عوامی مقبولیت اور انتظامی قوت کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ پھر تعداد کے علاوہ مجمع کا جوش و خروش بھی جلسوں کا اثر بڑھاتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی ن لیگ کے متوالے یا شیر بجھے بجھے لگے۔  

لاہور جلسہ زیادہ سے زیادہ ایک روایتی سیاسی شو تھا (فوٹو: اے ایف پی)

کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مریم نواز کے 2018  میں سرگودھا اور منڈی بہاؤالدین کے جلسوں میں اس سے زیادہ جوش و خروش دیکھا گیا۔
آخر میں جلسوں کی تاریخی اہمیت ان میں کیے گئے فیصلوں سے ہوتی ہے جو جماعت کے قائدین کی طرف سے ہوتی ہیں۔
اس اعتبار سے تو گوجرانوالہ جلسے کے بعد سے پی ڈی ایم نے سیاسی ٹمپریچر کو بتدریج کنٹرول ہی کیا ہے۔
مولانا اور بلاول تو پہلے ہی نپی تلی پوزیشن لیتے رہے ہیں اور اسی ڈگر پر رہے۔ اس دفعہ مریم نواز کی تقریر البتہ باقاعدہ محنت سے تیارشدہ تھی۔ اس میں ویڈیوز بھی تھیں اور حکومت کے خلاف منظم چارج شیٹ بھی مگر کچھ اشاروں کے علاوہ زور عمران خان کے ہی خلاف رہا۔ نواز شریف نے بھی سول سپرمیسی کے  اپنے بیانیے کو  ہی دہرایا بلکہ نام لینے کا بار بار ذکر کر کے نام لینے سے احتراز ہی کیا۔  
لاہور جلسہ زیادہ سے زیادہ ایک روایتی سیاسی شو تھا مگر اس کے ساتھ مریم نواز کی انتظامی اہلیت پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ نواز شریف کے بیانیے کو جس موثر انداز میں وہ آگے بڑھا رہی ہیں کیا وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ سوشل میڈیا سے نکل کر عوامی سطح پر کارکنوں کو منظم کر سکیں؟

لاہوری جلسے میں آئیں نہ آئیں، اگر آج الیکشن ہوا تو اکثریتی ووٹ نواز لیگ کی جھولی میں ہی گرے گا (فوٹو: اے ایف پی)

حمزہ شہباز کی غیر موجودگی میں اگر ن لیگ کے گھر لاہور میں ان کو چلینجز درپیش ہیں تو کیا پنجاب اور باقی ملک میں کامیاب ہو سکیں گی؟
یہ بات بھی درست ہے کہ لاہوری جلسے میں آئیں نہ آئیں، اگر آج الیکشن ہوا تو اکثریتی ووٹ نواز لیگ کی جھولی میں ہی گرے گا لیکن کیا ن لیگ کے کارکن مریم نواز کی مزاحمتی سیاست بشمول استعفے،  دونوں کے لیے تیار ہے یا نہیں؟  
اس سوال کا جواب ن لیگ کو اپنی صفوں میں ڈھونڈنا ہوگا۔

شیئر: