Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیا یہ ہمارے اخبارات کے صفحہ اول کا مستقبل ہوگا؟‘

پی ڈی ایم کے پہلے مرحلے کا آخری جلسہ لاہور میں اتوار 13 دسمبر کو ہوا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے لاہور جلسہ کے بعد قومی اخبارات کے فرنٹ پیجز پر وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی تصاویر والے اشتہارات کا معاملہ سوشل میڈیا میں زیرِ بحث ہے اور کافی تنقید کی زد میں ہے۔ 
حکومت پر تنقید کے ساتھ ساتھ اخبارات کی ادارتی پالیسی کے بارے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بہت سے صارفین کہہ رہے ہیں کہ اخبارات نے خبریں اندرونی صفحوں پر شائع کرکے قارئین کا جاننے کا حق مجروح کیا ہے۔ 

پیر کو چند قومی روزنامے کے صفحہ اول 

صارفین کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ یہ اخبارات نجی کمپنیوں  نےنہیں بلکہ حکومت کی جانب سے ہی شائع کیے گئے ہیں۔ 
تاہم اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ نے کہا کہ ’جب حکومت نے جلسے کو نہیں روکا تو ہمیں اس کی کوریج روکنے کی کیا ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ حکومت کے اشتہارات نہیں ہیں۔ عموما کسی بھی بڑے موقع پر لوگ اشتہارات دیتے ہیں تاکہ زیادہ توجہ حاصل کر سکیں۔ یہ اپنی مرضی ہوتی ہے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’اگر ان اشتہارات کی ادائیگی قومی خزانے سے کی ہوتی تو تنقید بجا تھی۔ اگر حکومت کی جانب سے یا قومی خزانے سے اس پر رقم خرچ نہیں ہوئی تو پھر اس میں کوئی حرج بھی نہیں اور اس پر کسی کو جواب دہ بھی نہیں ہیں۔‘ 
یاد رہے کہ ڈی ایم کے گوجرانوالہ میں ہونے والے جلسے کے اگلے روز بھی ایسے ہی اشتہارات شائع ہوئے تھے۔ 
 صارفین نے پاکستان کے اردو اخبارات کے صفحہ اول کی تصاویر بھی شیئر کی ہیں۔ 
پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے فروغ کے حوالے قائم تھنک ٹینک پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اپنے ٹویٹ میں طنز کیا کہ ’کیا یہ ہمارے اخبارات کے صفحہ اول کا مستقبل ہوگا؟‘ 
سینئیر صحافی احمد ولید نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ’ماضی میں بھی ایسے اشتہارات دیکھے ہیں۔‘ 
ایک صارف افی ویوز نے لکھا کہ ’ گجرانوالہ کے جلسے اور لاہور کے جلسے کے بعد اشتہارات، ابھی بھی لوگ کہتے خان کو سیاست نہیں آتی۔‘
اردو نیوز نے اس حوالے سے اخبارات کا موقف جاننے کے لیے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) سے رابطہ کیا گیا تو ان کی جانب سے موقف دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اے پی این ایس کے ایک اعلی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’قارئین کا یہ کہنا درست ہے کہ ان کا پڑھنے اور جاننے کا حق مجروح ہوا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ اشتہارات کیوں چھپوائے گئے ہیں۔‘
اعلی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’تنظیم کی جانب سے اس معاملے پر ہونے والی تنقید پر ردعمل نہیں دے سکتے کیونکہ اشتہارات شائع کرنا یا نہ کرنا اخبارات کی اپنی صوابدید ہے۔‘

شیئر: