انڈیا: پنچایت کی سربراہ بننے والی پاکستانی خاتون کے خلاف مقدمہ درج
بانو بیگم تقریباً 35 برس قبل اپنے رشتہ داروں سے ملنے پاکستان سے بھارت آئیں (فوٹو: اے این آئی)
انڈین ریاست اتر پردیش کے ایک گاؤں میں پنچایت کی عبوری سربراہ بننے والی پاکستانی خاتون بانو بیگم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
انڈین نیوز ایجنسی اے این آئی کے مطابق بانو بیگم 35 برس قبل پاکستان سے انڈیا پہنچی تھیں اور اس وقت سے وہیں مقیم ہیں۔
ایٹا شہر کے ضلعی پنچایتی افسر الوک پریادرشی کا کہنا ہے کہ ’گرام پنچایت کے ممبران نے انہیں پنچایت کی سربراہ کے طور پر منتخب کیا، لہذا اس کے وہ ذمہ دار ہیں۔ گاؤں میں پنچایت کا سربراہ بننے کے لیے انڈین شہریت ضروری ہے۔ ہم نے مقدمہ درج کرنے کی درخوست دی۔‘
بانو بیگم نے اے این آئی کو بتایا کہ ’میں کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ پنچایت کے سابق سربراہ نے مجھے یہ عہدہ دیا۔ مجھے اس معاملے کا زیادہ علم نہیں ہے۔‘
پولیس کے ایس ایس پی کی جانب سے 2016 میں بانو بیگم کو ایک نوٹس دیا گیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ’آپ کا انڈین ویزہ چھ ستمبر 2016 کو ختم ہو چکا ہے۔ آپ نے ویزے کی توسیع کے لیے دیر سے درخواست دی، لہذا آپ نے 30 ستمبر تک چالان فیس ادا کرنی ہے جو 30 امریکی ڈالر ہے۔‘
ایک افسر کا کہنا ہے کہ ’چالان فیس ادا نہیں کی گئی تھی اور ہم اس معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘
انڈین میڈیا کے مطابق بانو بیگم تقریباً 35 برس قبل ایٹا میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے پاکستان سے انڈیا آئیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک مقامی شخص اختر علی سے شادی کی اور اس کے بعد سے وہ ایک طویل مدتی ویزا پر ایٹا میں مقیم تھیں۔