میڈیکل کالجز کے انٹری ٹیسٹ تنازعات کا شکار کیوں ہوئے؟
میڈیکل کالجز کے انٹری ٹیسٹ تنازعات کا شکار کیوں ہوئے؟
جمعرات 7 جنوری 2021 6:27
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
2020 میں ایک لاکھ 21 ہزار امیدواروں میں سے 67 ہزار امیدوار کامیاب ہوئے۔ (فوٹو بشکریہ: صابر مظہر)
پاکستان میں ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کرنے کے لیے ہر سال لاکھوں طلبہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلے کے امتحان کا حصہ بنتے ہیں۔
2020 میں ایک لاکھ 21 ہزار امیدواروں میں سے 67 ہزار امیدوار کامیاب ہوئے لیکن میڈیکل کالجز میں داخلے کا یہ امتحان ابتدا سے لے کر نتائج تک بھرپور تنازعات کا شکار رہا۔
تنازعات کیا ہیں اور ان کی وجہ کیا بنی؟
2020 میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں داخلہ کا امتحان(ایم ڈی کیٹ) پہلی بار تنازع کا شکار ہوا جب پاکستان میڈیکل کمیشن(پی ایم سی) اور سندھ حکومت کے درمیان میڈیکل کالجز میں داخلے کے امتحان کروانے میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ سندھ حکومت نے ایم ڈی کیٹ 18 اکتوبر کو کروانے کا اعلان کیا جس کے خلاف میڈیکل یونیورسٹی اور طلبہ نے عدالت سے رجوع کیا۔
عدالت نے 18 اکتوبر کو ہونے والے امتحانات ملتوی کرنے کے احکمات دیے اور پی ایم سی ایکٹ کے تحت ہی پورے ملک میں امتحانات کروانے کا حکم دیا جس کے بعد پاکستان میڈیکل کمیشن نے یکساں نصاب کے تحت 15 نومبر کو امتحانات کروانے کا اعلان کیا۔
پی ایم سی کے اس فیصلے خلاف طلبا نے تحفظات کا اظہار کیا اور موقف اپنایا کہ مختلف صوبوں کے تعلمی اداروں میں مختلف نصاب ہے تو میڈیکل کالجز میں داخلہ کے امتحان کے لیے یکساں نصاب کیسے متعارف کروایا جاسکتا ہے۔
یوں یہ معاملہ ایک بار پھر عدالت کے سامنے آ گیا جس پر عدالت نے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کو اکیڈمک بورڈ تشکیل دینے کے احکمایات دیے جو کہ تمام صوبوں اور وفاق میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ لینے کے بعد یکساں نصاب سے امتحان مرتب کرے۔
اور یوں پی ایم سی کی جانب سے شیڈول 15 نومبر کو ہونے والے میڈیکل کالجز میں داخلے کے امتحان (ایم ڈی کیٹ) دوسری بار ملتوی کردیے گئے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میڈیکل کالجز میں داخلے کے امتحانات صوبائی سطح پرعلیحدہ علیحدہ انعقاد کروایا کرتی تھی۔
تحریک انصاف کی حکومت نے گذشتہ برس پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل کمیشن کے نام سے آرڈیننس جاری کیا اور تمام میڈیکل کالجز کے معاملات پاکستان میڈیکل کمیشن کے سپرد کر دیے۔
پی ایم سی کی جانب سے 29 نومبر کو میڈیکل کالجز کے انٹری ٹیسٹ شیڈول کیے گئے تو ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے پیش نظر26 نومبر سے تمام تعلمی ادارے ایک بار پھر بند کر دیے گئے لیکن میڈیکل کالجز میں داخلے کا امتحان شیڈول کے مطابق لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ جبکہ جن طلبہ کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ان کو رعایت دیتے ہوئے 13 دسمبر کو خصوصی امتحان لینے کا اعلان کیا گیا۔
پی ایم سی کے اس فیصلے پر ایک بار پھر طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ کورونا وائرس مثبت آنے والے طلبہ کو رعایت دی جا رہی ہے جس سے انہیں امتحان کی تیاری میں مزید وقت مل جائے گا جو کہ غیر مساوی عمل ہے۔
پی ایم سی پر شدید دباؤ کے باجود اس بار امتحانات ملتوی نہیں کیے گئے اور 29 نومبر کو بالآخر میڈیکل کالجز میں داخلے کے امتحانات کورونا ایس او پیز کے تحت پاکستان کے مختلف سنٹرز میں منعقد کروائے گئے۔
امتحان کے بعد طلبہ نے ایک بار پھر پی ایم سی کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس بار طلبہ کا موقف تھا کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے امتحان میں ایسے سوالات آئے جو نصاب میں شامل ہی نہیں تھے۔
سولہ دسمبر کو پی ایم سی کی جانب سے نتائج کا اعلان ہوا، ابتدا سے متنازع ہونے والے امتحان کے نتائج پر بھی سوالات اٹھنے لگے اور ایک بار پھر پی ایم سی کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑنا۔
اس بار طلبہ نے توقعات سے کم نمبر آنے جبکہ چند طلبہ نے اعلان کردہ نتائج میں غیر حاضر قرار دینے پر سوالات اٹھا دیے۔ طلبہ کے شدید دباؤ پر پی ایم سی نے نظرثانی نتائج جاری کرنے کا اعلان کیا جبکہ اعلان کردہ نتائج کو ویب سائیٹ سے ہٹا دیا گیا۔
دو روز بعد ایک بار پھر نتائج کا اعلان ہوا لیکن اس بار بھی طلبہ نتائج سے مطمئن دکھائی نہیں دیے اور اب ایک بار پھر معاملہ عدالت میں جا پہنچا ہے۔ اس حوالے سے صوبائی وزیر صحت سندھ عذرا افضل پچیہو نے بھی پی ایم سی کے نتائج کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
طلبا کے تحفظات کیا ہیں؟
صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی رمشا عائشہ حال ہی میں ہونے والے میڈیکل کالجز کے انٹری ٹیسٹ میں حصہ لے چکی ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو نتائج جاری کیے گئے ہیں ان کا اگر موازنہ کیا جائے تو طلبہ کو 20 سے 30 نمبر کم دیے گئے ہیں، نتائج بالکل ہماری توقعات کے برعکس آئے ہیں۔
رمشا عائشہ کے مطابق 'امتحان میں ایسے سوالات آئے تھے جو کہ نصاب میں شامل ہی نہیں تھے جس پر پی ایم سی نے گریس مارکس دینے کا کہا تھا لیکن اعلان کردہ نتائج میں گریس مارکس بھی شامل نہیں کیے گئے۔'
خیبر پختونخوا کے شہر ہری پور سے تعلق رکھنے والے محمد جنید کہتے ہیں کہ تین ماہ سے طلبہ ایم ڈی کیٹ کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار رہے، دو مرتبہ امتحانات ملتوی کیے گئے، 'کبھی نصاب تبدیل کیا جاتا رہا اور امتحان کے بعد اب تتائج جو سامنے آئے ہیں وہ بھی ہماری توقعات کے بالکل برعکس ہیں، یہ تو ہمارے مستقبل کا معاملہ ہے لیکن اس میں بھی سیاسی مداخلت کے باعث تنازعات کھڑے کیے جاتے رہے۔'
محمد جنید کے خیال میں یہ طلبا کے ساتھ زیادتی ہے کہ جو کچھ انہوں نے کبھی پڑھا ہی نہیں اس نصاب سے سوالات دیے جائیں اور پھر میرٹ مرتب کیا جائے جو کچھ ہم نے پڑھا ہی نہیں اس کے بارے پوچھ کر ہماری قابلیت کیسے جانچی جائے گی؟
پاکستان میڈیکل کمیشن کیا کہتا ہے؟
پاکستان میڈیکل کمیشن کے نائب صدر محمد علی رضا طلبہ کے تحفظات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا بالکل نہیں کہ سوالات نصاب سے باہر سے شامل کیے گئے ہوں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اکیڈمک بورڈ نے ملک بھر میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ لے کر اس میں سے جو یکساں نصاب تھا اس کی بنیاد پر سوالات مرتب کیے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اکثر کالجز میں بورڈ کی جانب سے دیے گئے تعلیمی نصاب کو بھی آدھا پڑھایا جاتا ہے،اب جہاں مکمل نصاب ہی نہیں پڑھایا جاتا تو اس میں پی ایم سی کا کیا قصور ہے '
انہوں نے کہا کہ طلبہ کے تحفظات پاکستان میڈیکل کمیشن نے دور کر دیے ہیں، پہلے نصاب پر تحفظات تھے ملک میں یکساں نصاب مرتب کیا، 'اس کے بعد نتائج پر طلبہ نے تحفظات کا اظہار کیا کہ مارکنگ درست نہیں ہوئی تو اس حوالے سے کمیشن نے ری مارکنگ کی سہولت بغیر کسی فیس کے فراہم کی، جن طلبہ کو مارکنگ پر تحفظات تھے انہوں نے درخواست جمع کروائی اور بغیر کسی فیس لیے ان کی ری مارکنگ بھی کر دی گئی۔ '
'کچھ طلبہ کے یہ بھی تحفظات تھے کہ ان کے نتایج میں غلطیاں ہوئیں اس بار مکمل نتیجہ کمپیوٹر کے سافت ویئر کی مدد سے مرتب کی گیا اس میں انسانی ہاتھ ملوث نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تعلیمی قابلیت جانچنے کا ایک امتحان ہوتا ہے اور اس سے پہلے جو امتحان لیے گئے اس بار پی ایم سی نے یکسر مختلف امتحان لیا جن میں ایسے سوالات شامل کیے گئے جس میں قابلیت کا اندازہ لگایا جا سکے اب اس امتحان کو رٹے لگا کر پاس تو نہیں کیا جا سکتا۔'
محمد علی رضا نے کہا کہ اس بار مکمل طور پر کمپیوٹرائز نتائج مرتب کیے گئے اور اس میں کوئی انسانی ہاتھ شامل نہیں ہے، جبکہ نتائج گذشتہ امتحانات کے مطابق ہی آئے ہیں۔
'پنجاب میں کامیاب امیدواروں کی شرح 70 فیصد، اسلام آباد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 70 فیصد، خیبر پختونخوا میں 48 فیصد، سندھ میں 45 فیصد اور دیہی سندھ میں 20 فیصد کامیاب امیدواروں کی شرح رہی اور اس سے پہلے بھی یہ شرح اتنی ہی تھی۔'