Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قاضیٔ بصرہ،حضرت ایاس بن معاویہ المزنیؒ

قاضی ایاس اپنی ذہانت کی بدولت بصرہ میں پہلے ہی مشہور تھے، جب قاضی بنے تو ایسے عمدہ فیصلے کئے کہ پڑھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے
 
عبدالمالک مجاہد۔ ریاض
 
عربوں کے ہاں جب کبھی حلیم اور حوصلہ مند شخص کی مثال دینی ہو تو کہتے ہیں:  فُلَانٌ أَحْلَمُ مِنَ الأَحْنَفِ  ’’فلاں شخص تو احنف بن قیس سے بھی زیادہ حلیم الطبع ہے۔
 
اگر کبھی سخاوت کی مثال دینی ہو تو حاتم طائی کی مثال دیتے ہیں کہ فلاں شخص حاتم طائی سے بھی زیادہ سخی ہے۔ اسی طرح اگر کسی ذہین و فطین آدمی کی مثال دینی ہو تو کہتے ہیں’’فلاںآدمی تو ایاس بن معاویہ سے بھی زیادہ ذہین ہے۔
 
ایاس بن معاویہؒ اتنے زیادہ ذہین تھے کہ خود اپنے بارے میں وہ کہتے ہیں
میں لوگوں کے ساتھ معاملات یا گفتگو کرتے ہوئے آدھی ذہانت استعمال کرتا ہوں۔
 
یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عام لوگوں کے ساتھ ان کی ذہنی سطح کے مطابق ہی بات کرنی چاہیے۔
سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض ’’یمامہ‘‘ کے صوبے میں واقع ہے۔ پرانے زمانے میں اس علاقے کو نجد کہا جاتا تھا۔ یمامہ میں معاویہ المزنی کے ہاں 46ہجری میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جس کا نام ایاس رکھا جاتا ہے۔ دنیا میں یوں تو ہر روز ہزاروں لاکھوں بچے پیدا ہوتے ہیں مگر ان میں بعض بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے ایک دن بڑا آدمی بننا ہوتا ہے۔ ایسے بچے غیر معمولی صلاحیتیوں کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے بچے بچپن سے ہی دوسرے بچوں سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ عام بچوں کی نسبت ان میں کچھ علیحدہ خوبیاں ہوتی ہیں۔
 
ایاس بن معاویہ پیدا تو یمامہ کے علاقے میں ہوئے مگر جلد ہی ان کے والدین ان کو لے کر عراق کے مشہور شہر بصرہ میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ایاس کا بچپن بصرہ میں گزرتا ہے۔ اس زمانے میں بصرہ ایک علمی مرکز کی شہرت رکھتا تھا۔ یہاں بڑے بڑے علمائے کرام رہتے تھے۔ جس دور میں ایاس پیدا ہوئے وہ خیر القرون کا زمانہ تھا۔ لوگوں میں خیر کا پہلو غالب تھا۔ علماء کے حلقات تھے،چنانچہ ایاس نے علمائے کرام سے خوب استفادہ کیا۔ ان سے بہت کچھ سیکھا اور علم حاصل کیا ۔ وہ ان مجالس میں بیٹھتے، ان سے قرآن کریم پڑھتے۔ حدیث، فقہ کی تعلیم حاصل کی۔
 
ایاس اپنی عمر کے بچوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ذہین و فطین تھے اس لئے اساتذہ کی نظروں میں ان کی اہمیت بہت ہی زیادہ تھی۔ وہ ایاس پر خوب توجہ دیتے۔ ایاس بھی پڑھائی پر بھر پور توجہ دیتے۔ اس طرح ایاس بچپن میں ہی کافی کتابیں پڑھ کر بڑے عالم فاضل بن جاتے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو اتنی خوبصورت کہ سننے والے حیران رہ جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ نماز پڑھانے کا وقت آتا تو ایاس ہی کو امامت کے لئے مصلے پر کھڑا کیا جاتا۔
 
ایک مرتبہ عبدالملک بن مروان نے دیکھا کہ بصرہ کے 4بڑے مشہور قراء چھوٹی عمر کے نوجوان کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ عبدالملک بن مروان ابھی خلیفہ المسلمین کے منصب پر فائز نہ ہوا تھا تاہم اس کا والد مروان بن حکم خلیفہ تھا۔عبد الملک کو بڑا تعجب ہوا کہ ایک چھوٹا سا نو عمر لڑکا اتنے بڑے مشہور اور نامور قراء کی امامت کروا رہا ہے ۔اس نے کہا: مجھے اس بستی کے لوگوںپر افسوس ہے کہ کیا ان کے درمیان کوئی بڑی عمر کا شخص نہیں جو ان کو نماز پڑھائے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو عبدالملک بن مروان نے اس نو عمر لڑکے سے پوچھا: لڑکے تمہاری کتنی عمر ہے؟ یہ لڑکا جس نے ابھی ابھی جماعت کروائی تھی،ایاس بن معاویہ مزنی تھا۔ اس نے جواب دیا کہ میری عمر اسامہ بن زید جتنی ہے، جب انہیں اللہ کے رسولنے ایک لشکر کا سپہ سالار بنایا تھا۔ اس لشکر میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓاور سیدنا عمر فاروقؓ بھی شامل تھے۔ عبدالملک اس جواب سے بڑا محظوظ ہوا اور کہنے لگا : نوجوان! آگے بڑھو، تم واقعی امامت کے حق دار ہو۔
 
ایاس چھوٹی عمر میں ہی اپنی غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے بصرہ شہر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا۔ بصرہ شہر کے لوگ اس کی ذہانت اور فطانت کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ 
 
بتدریج اس با صلاحیت لڑکے کی شہرت پھیلتی چلی گئی۔ بسا اوقات ارد گرد کے دیہاتوں اور شہروں سے لوگ اس لڑکے سے ملاقات کرنے اور دینی اور معاشرتی مسائل میں اس سے رہنمائی لینے کے لئے آیا کرتے تھے۔ وہ اس کی ذہانت کوبھی آزمایا کر تے تھے۔ایک مرتبہ بصرہ کے قریبی شہر کا ایک بڑا امیر کبیر شخص بصرہ آتا ہے اور ایاس سے ملاقات کرتا ہے۔ وہ اس نوجوان کی ذہانت کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ اس نے ایاس سے سوال کیا کہ شراب کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ ایاس نے جواب دیاکہ شراب حرام ہے۔ وہ آدمی کہنے لگا کہ اس کی حرمت کا سبب کیا ہے؟ شراب میں آخر ہوتا ہی کیا ہے؟ کچھ پھل ،فروٹ۔ انہیں پانی میں ڈال کر آگ پر رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ پکتے رہتے ہیں، پکتے رہتے ہیں۔ ٹھنڈے ہو جاتے ہیں تو اس پانی کو پی لیتے ہیں۔ اب دیکھو نا کہ یہ سارے فروٹ اور پانی تو حلال ہیں۔
 
ایاس کہنے لگے کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ وضاحت کروں؟ شخص کہنے لگا : ہاں ضرور ضرور بتائیں۔
ایاس کہنے لگے: اگر میں زمین سے اپنی مٹھی میں کچھ مٹی اٹھاؤںاور اسے آپ کو دے ماروں تو کیا وہ آپ کو تکلیف دے گی۔ اس نے کہا : نہیں! اگر باریک مٹی کسی پر پھینکی جائے تو اسے کچھ بھی نہیں ہو گا۔
 
ایاس کہنے لگے کہ اگر میں آپ کے چہرے پر چلو بھر پانی پھینکوں تو آپ کو تکلیف ہو گی؟ وہ آدمی کہنے لگا: اس سے کیا ہو گا؟ کچھ بھی نہیں،مجھے تو کچھ نہیں ہو گا۔
 
ایاس کہنے لگے کہ اچھا اگر میں مٹھی بھر توڑی آپ کے چہرے پر دے ماروں تو آپ کو تکلیف ہو گی۔ وہ آدمی کہنے لگا کہ نہیں۔
ایاس کہنے لگے کہ اگر میں مٹی کو لوں اس میں توڑی ملا دوں پھر اس پر پانی انڈیل دوں۔ ان تینوں اشیاء کو آپس میں خوب اچھی طرح ملاؤں پھر اس گارے کو دھوپ میں رکھ کر سکھاؤں اور جب وہ اچھی طرح سوکھ جائے تو اسے آپ کو دے ماروں تو کیا آپ کو درد ہو گا
 
وہ شخص کہنے لگا: آپ صرف درد کی بات کرتے ہیں،اس سے تو میں مر بھی سکتا ہوں۔
 
ایاس کہنے لگے: شراب کا بھی یہی حال ہے۔ جب اس کو بنانے کے لئے مختلف اشیاء کو جمع کیا جائے۔ پھر ان چیزوں کو آگ پر پکایا جائے تو اس میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے جو کہ حرام ہے۔ 
 
ایاس بن معاویہ تابعی تھے ۔ انہوں نے کتنے ہی صحابہ کرام کی زیارت کی تھی۔ ان کی خوش قسمتی کہ انہوں نے خادم رسولؐ سیدنا انس بن مالکؓ  کی نہ صرف زیارت کی تھی بلکہ ان کے ساتھ وقت بھی گزارا تھا۔ اللہ کے رسولکی دعا کی برکت سے سیدنا انسؓ نے لمبی عمر پائی۔ 
 
ایک مرتبہ لوگ رمضان کا چاند دیکھنے کے لئے شہر سے باہر گئے۔ سیدنا انسؓ  کی عمر مبارک اس وقت 100 کے قریب ہو گی۔ انہوں نے بھی چاند دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، چنانچہ وہ بھی لوگوں کے ساتھ باہر تشریف لے گئے۔ لوگوں نے چاند دیکھنا شروع کیا مگر انہیں چاند نظر نہ آیا۔ کہنے لگے: ہمیں تو چاند نظر نہیں آ رہا مگر سیدنا انسؓ  مصر تھے کہ نہیںوہ دیکھو چاند نظر آ رہا ہے۔ ایاس بن معاویہ بھی ان لوگوں کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ وہ معاملہ سمجھ گئے۔ دراصل سیدنا انس بن مالک ؓ  کی بھویں بڑی بڑی تھیں۔ ایک بڑا بال گولائی کی شکل لئے ہوئے ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہ انہیں جب دیکھتے تو ایسے ہی نظر آتا جیسا کہ چاند نکلا ہوا ہے۔ ایاس آگے بڑھے، بڑے ادب سے ان کی آنکھ پر ہاتھ رکھا اور اس بال کو سیدھا کر دیا ۔ عرض کرتے ہیں: محترم و مکرم! اللہ کے رسولکے خادمِ خاص! اب دیکھئے، کیا آپ کو چاند نظر آ رہا ہے؟ تو سیدنا انسؓ نے فرمایا: نہیں بھئی! اب تو چاند نظر نہیں آ رہا۔
 
قارئین کرام ! اس کو کہتے ہیں: ادب۔اسے معاملہ فہمی کہتے ہیں۔حضرت ایاسؒ نے سیدنا انسؓ سے بحث نہیں کی نہ ہی ان کے ساتھ الجھے بلکہ ہم جیسے لوگوں کو بتا دیا ہے کہ اگر کوئی ہم سے علم، عمل اور عمر میں بڑا ہو تو اس کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا چاہیے۔
 
حضرت ایاسؒکے علم اور دانائی کی باتیںنیز ان کی ذہانت کے واقعات لوگوں کی زبانی عام ہوتے چلے گئے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ  کا سنہری دور ِخلافت شروع ہوتا ہے۔ انہیں بصرہ کے گورنر کی طرف سے درخواست موصول ہو چکی تھی کہ ہمیں فیصلوں کے لئے ایک ایسے قاضی کی ضرورت ہے جو اللہ اوراس کے رسولکے بتائے ہوئے اصولوں اور احکامات کے مطابق فیصلے کرے۔ جو لوگوں کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکے ۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ ایک رات سونے کے لئے اپنے بستر پر لیٹتے ہیں تو انہیں نیند نہیں آرہی۔ وہ مسلسل سوچ و بچار کر رہے ہیں کہ کسے اس اہم شہر کا قاضی مقرر کریں۔ سوچتے سوچتے ان کے سامنے 2نام آتے ہیں۔ ایک نام تو حضرت ایاس بن معاویہ مزنیؒ کا تھا اور دوسرا نام قاسم بن ربیعہ الحارثی کا ۔ دونوں ہی بڑے ذہین و فطین اور سمجھ دار تھے۔ ان کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ دونوں میں سے کسے یہ اہم عہدہ سونپیں۔
 
قارئین کرام! وہ دور آج سے قطعی مختلف تھا کہ آج تو منصب حاصل کرنے کے لئے سفارشیں تلاش کی جاتی ہیں۔ بعض اوقات رشوت تک ادا کی جاتی ہے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ نے اگلے روز عراق کے گورنر کو اپنے پاس دمشق میں طلب کر لیا۔ اموی دور میں دمشق مسلمانوں کا دارالحکومت تھا۔ یہ حسنِ اتفاق تھا کہ عراق کے گورنر عدی بن ارطاۃ ان دنوں دمشق آئے ہوئے تھے۔ ملاقات ہوئی تو ان سے پوچھا کہ میں ان دونوں میں سے ایک کو کوفہ کا قاضی بنانا چاہتا ہوں۔ تم رائے دو کہ ان دونوں میں سے کون زیادہ افضل اور بہتر ہے؟
 
اب عدی کے لئے بھی فیصلہ کرنا اتنا آسان نہ تھا تاہم انہوں نے خوب سوچ فکر کے بعد ان دونوں شخصیات کو اپنے پاس بلوا لیا۔ ایاس بن معاویہؒ ،قاسم بن ربیعہ الحارثی اور گورنر عراق عدی ایک کمرے میں بیٹھے آپس میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ عدی ان کو بتا رہے ہیںکہ امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیزؒ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم دونوں میں سے کسی ایک کو بصرہ کا قاضی مقرر کر دوں۔
 
یہ سننے کے بعد مجلس میں سناٹا چھا گیا۔ ایاس اور قاسم دونوں ایک دوسرے کی تعریفیں بیان کر رہے ہیں۔ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بار ے میں کہہ رہا ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ افضل اور بہتر ہے لہٰذا اسی کو قاضی مقرر کیا جائے۔ 
 
سبحان اللہ وہ دور کتنا پاکیزہ تھا کہ ہر کوئی اپنے دین کو سلامت رکھنے کے لئے سرکاری ذمہ داریوں سے بھاگتا تھا اور عہدے کا خواہش مند نہ تھا۔ دونوں میںبحث چلتی رہی۔ دونوں ہی مُصر تھے کہ میری جگہ دوسرے کو قاضی بنایا جائے۔ خاصی دیر تک دونوں میں بحث چلتی رہی۔آخر کارحضرت ایاس بن معاویہؒ  کی ذہانت یہاں بھی کام آگئی۔ انہوں نے مشورہ دیا : جنابِ امیر! میری رائے ہے کہ آپ امام حسن بصری اور امام محمد بن سیرین سے مشورہ لیں تو وہ بڑا عمدہ مشورہ دیں گے۔
 
امیر عراق عدی بن ارطاۃ کو تجویز پسند آئی۔ امام حسن بصریؒ اور امام محمد بن سیرینؒ اس دور کے سب سے بڑے ائمہ میں سے تھے۔ ان کی دیانت، شرافت اور نیک نیتی کی قسم کھائی جا سکتی تھی۔قاسم بن ربیعہ سمجھ گئے کہ ایاس بن معاویہ مجھے قاضی کے عہدے پر فائز کر کے رہیں گے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ قاسم امام حسن بصریؒ کے خاص شاگرد تھے۔ وہ صبح و شام ان کے پاس جاتے اور ان سے علمی استفادہ کرتے۔ یقینا جب ان سے قاسم بن ربیعہ کے بارے میں رائے لی جائے گی تو وہ انہی کے حق میں مشورہ دیں گے۔
 
قاسم نے عدی بن ارطاۃ سے کہا :جنابِ امیر! میرا مشورہ ہے کہ آپ ان دونوں شخصیتوں سے بالکل مشورہ نہ کریں۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایاس مجھ سے کہیں زیادہ فقیہ اورعدل و قضاء کے معاملات کو سمجھنے والے ہیں۔ امیر! سنیے، اگر میں نے جھوٹی قسم کھائی ہے تو آپ کو ایک جھوٹے شخص کو قاضی مقرر نہیں کرنا چاہیے اور اگر میں سچا ہوں تو آپ کو ایک افضل آدمی کو چھوڑ کر اس سے کمتر شخص کو قاضی نہیں بنانا چاہیے۔
 
حضرت ایاسؒ نے ہر چند کہ اپنے مزید دلائل پیش کیے اور درخواست کی کہ اسے قاضی نہ بنایا جائے مگر امیر عراق عدی نے اپنا فیصلہ سنایا کہ ایاس جاؤ میں نے تمہیں بصرہ کا قاضی مقرر کر دیا ہے۔ اس طرح حضرت ایاس بن معاویہؒ  بصرہ کے قاضی مقرر ہو جاتے ہیں۔ اس دور کے قاضی بڑے ہی عادل ہوا کرتے تھے۔ اللہ کے رسولکی حدیث ہے کہ 7 قسم کے ایسے لوگ ہوں گے جنہیں قیامت کے روز اللہ رب العزت اپنے عرش کا سایہ نصیب کریں گے۔ ان میں سب سے پہلے جس شخص کا نام حدیث پاک میں آتا ہے وہ عدل اور انصاف کرنے والا قاضی اور جج ہے۔ قاضی ایاس اپنی ذہانت وفطانت کی بدولت بصرہ میں پہلے ہی مشہور تھے۔ شہر کے قاضی بنے تو انہوں نے ایسے ایسے عمدہ فیصلے کیے کہ انہیں پڑھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے۔
 
(جاری ہے)
 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: